جناب حضرت امام حسین کی شہادت کا دن شيعہ، سنَی، وہابی یعنی سارے مسلمان مناتے ہیں اور بڑی دھوم دھام سے مناتےہیں۔ محرم میں ہم ماتم کرتے ہیں، ختم کراتے ہیں، کالے کپڑے پہنتے ہیں، مجالس میں جاتے ہیں اور حضرت امام حسین کو یاد کرکے روتے روتے نڈھال ہوجاتے ہیں، اپنے جسم کو اذیَت پہنچا کر حضرت امام کی اذیَت کا اذالہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہاں تک کہ ہم کھانا پینا تک چھوڑ ریتے ہیں مگر جو سبق اس واقعہ سے ہمیں حاصل کرنا چاہیۓ اس کا احساس تک نہیں کرتے۔

حضرت امام حسین کے ہم پیروکار ہیں مگر نام کی حد تک لیکن اگر ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیں تو ہم سارے یزید کے چیلے نکلیں گے۔

حضرت امام حسین نے یزید کی مخالفت کی کہ وہ دھوکے باز اور وعدہ خلاف تھا مگر ہم تو اسی کو اپنا لیڈر مانتے ہیں جو سیاسی چالیں چلنے میں ماہر ہو

حضرت امام حسین نے اصول کی خاطر جان دے دی اور دنیا کی آسائیشوں کو ٹھوکر مار دی مگر ہم دنیاوی آسائیشوں کیلۓ اپنے بھائی بھی غیروں کو بیچنے میں دریغ نہیں کرتے۔

حضرت امام حسین نے مخلص ساتھی چنے اور ڈرپوکوں کو مہلت دی کہ وہ انہیں رات کے اندھیرے میں چھوڑ کر چلے جائیں۔ ہم ہیں کہ رات کے اندھیرے میںاس طرح اپنے راستے بدل لیتے ہیں کہ اپنوں کو بھی خبر تک نہیں ہوتی۔

حضرت امام حسین نے ساری عمر نماز قضا نہیں کی اور جان بھی سربسجود ہو کر دی ۔ ایک ہم ہیں کہ نماز سے کوسوں دور بھاگتے ہیں مگر عزہ داری میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔

حضرت امام حسین نے حق کی خاطر جان دے دی ہم الٹا کافروں کی خاطر اپنوں کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔

حضرت امام حسین نے ہمیشہ انصاف کیا مگر ہم ڈنڈی مارنے ميں یہاں تک ماہر ہیں کہ اپنے بھائی کے ساتھ بھی بے انصافی کرنے سے نہیں کتراتے۔

حضرت امام حسین نے اپنے نانا کی ہر سنت پر ہم عمل کیا اور ہم سنت تو سنت فرائض سے بھی آنکھیں چراۓ بیٹھے ہیں۔

آج حضرت امام حسین کے روضہ کی حفاظت کافروں کے ہاتھوں میں ہے مگر ہم پھر بھی ان کے روضہ پر حاضری دے کر اپنے آپ کو بخشوا نے کی ناکام کوششیں کررہے ہیں۔

دراصل ہم وہ کبوتر ہیں جو بلی کو آتے دیکھ کر آنکھیں بند کرکے سمجھتا ہے کہ خظرہ ٹل گیا۔ جب بلی ایک ایک کرکے سارے کبوتروں کو کھانا شروع کرتی ہے تو آخری کبوتر مرنے تک یہی سمجھتا رہتا ہے کہ بلی اس کو چھوڑ دے گی کیونکہ وہ آنکھیں کھول کر دیکھتا ہی نہیں کہ اس کے ارد گرد کیا ہورہا ہے۔

اگر ہم خود کو اپنے ضمیر کے کٹہرے ميں کھڑا کر کے اپنے آپ کا جائزہ لیں تو سو فیصد یقین ہو جاۓ گا کہ ہم حسینی نہیں یزیدی ہیں۔أس وقت بھی حضرت امام حسین اقلیت میں تھے اور یزیدی اکثریت میں اور اِس وقت بھی دنیا میں یزیدی مسلمان کروڑوں میں  ہیں اور ان کے مقابلے میں گنتی کے چند حسینی مسلمان ہیں۔

ہم تب تک حسینی کہلانے کے حقدار نہیں ہوسکتے جب تک ہم ظالم حکمران کے سامنے کلمہً حق کہنے کی ہمت پیدا نہیں کرلیتے، جب تک ہم باعمل مسلمان نہیں بن جاتے، جب تک ہم دنیا کی لالچ چھوڑنہیں دیتے، جب تک ہم غداری سے توبہ نہیں کرلیتے، جب تک ہم کمزوروں کو ان کا حق نہیں دلاتے اور جب تک ہم کافروں کی تقلید بند نہیں کرتے۔

ہم کالے کپڑے پہن کر سمجھتے ہیں کہ حسینیت میں داخل ہوگۓ مگر اپنے دل کے کالےداغ دھونے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہم اپنی جلد کو کھرچ کھرچ کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے حسینیت زندہ کردی مگر ہم اپنے دل پر جمی بے غیرتی کی طے نہیں کھرچتے۔

ہم ختم کے چاول محلے میں بانٹ کر سمجھتے ہیں کہ جنت میں اپنی سیٹ بک کرالی مگر ہم اپنے پڑوسی کی مدد نہیں کرتے کہ کل کو وہ معاشی طور پر ہماری برابری پر نہ اتر آۓ۔

ہم ایک دن بھوکا پیاسا رہ کر سمجھتے ہیں قافلہً حسین میں داخل ہوگۓ مگر ہم اپنی روح کی پیاس نہیں بجھاتے جس کی زمین بے عملی کی وجہ سے بنجر ہوچکی ہے۔

اے حسینیت کے ماننے والو صرف دکھاوے کیلۓ تازیۓ نہ نکالو، اپنی امیری کا رعب جمانے کیلۓ ختم نہ کراؤ، کالے کپڑے پہنو مگر دل کالے نہ ہونے دو بلکہ اٹھو اور باعمل مسلمان بن کر دکھاؤ۔ اٹھو اور سنی شیعہ وہابی ایک موتی میں پرو دو۔ مسجدوں سے نفرتوں کی تبلیغ بند کرادو، اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی بجاۓ رواداری کی بات کرو۔ تب تم دین دنیا میں کامیاب ہو گے وگرنہ تمہارے دشمن تمہیں اسی طرح تکڑوں میں بانٹ بانٹ کر غلام بناۓ رکھیں گے اور ساری عمر تم ان کے آگے سر اٹھا کر نہیں چل سکو گے۔ ابھی بھی وقت ہے مسلمانو جاگو اور دشمن کے آگے متحد ہو کر ڈٹ جاؤ بھر دیکھنا دنیا تمہارے قدم چومے گی اور حسینیت کا دن تمہارے ساتھ ملکرمناۓ گی۔ 

انسان کو بيدار تو ہو لينے دو

ہر قوم پکارے گي ہمارے ہيں حسين