آج جنگ کی جس خبر کی طرف بلاگر اجمل صاحب نے توجہ دلائی ہے، اسے پڑھ کر ہمارا دھیان فوری طور پر جاوید چوہدری کے تازہ کالم کی طرف چلا گیا جس میں انہوں نے ایک بادشاہ کا ایسا واقعہ سنایا ہے جس کی وجہ سے اس کا نام تاریخ میں ہمیشہ کیلے امر ہو گیا۔

ہمیں بھی اسی طرح کا ایک قصہ یاد آ گیا۔ کسی ملک میں ایک وزیر انتہائی رشوت خور اور خردبرد کرنے والا مشہور تھا۔ جب اس کی حرام خوریوں کی خبر بادشاہ تک پہنچی تو اس نے اس پر مقدمہ چلا دیا۔ اسے قاضی نے مجرم قرار دیا اور اس کیلیے سزا یہ تجویز ہوئی کہ وہ آج کے بعد صرف سمندر کے کنارے بیٹھ کر اس کی لہریں گنا کرے گا۔

ابھی بے ایمان وزیر کو لہریں گنتے ایک دن بھی نہیں ہوا تھا کہ اس نے دیکھا کہ جب وہ لہریں گن رہا ہوتا ہے تو اس وقت کشتیاں سمندر میں آ جاتی ہیں اور وہ لہروں کو بگاڑ دیتی ہیں۔ اس نے کشتیوں کے مالکان کو ایک ایک کر کے پکٹرنا شروع کر دیا اور الزام یہ لگایا کہ بادشاہ نے جو حکم اسے لہریں گننے کا دے رکھا ہے اس کی حکم عدولی ہو رہی ہے اور ان سے اس حکم عدولی کا معاوضہ وصول کرنا شروع کر دیا۔ یعنی لوگ سچ کہتے ہیں “جیہڑے گھر پیہڑے اور لاہور وی پیہڑے”۔

پاکستان میں چیف جسٹس سے بڑا کوئی عہدہ انصاف اور ایمانداری کی مثال نہیں ہو سکتا اور جب وہی عہدہ کرپشن پر اتر آئے تو پھر صدر سے لیکر عام آدمی تک بےایمانی نہیں کرے گا تو کیا کرے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جاوید چوہدری کے کالم میں بیان کردہ واقعے کی طرح چیف جسٹس ڈوگر صاحب اس واقعے کا سوموٹو ایکشن لیں اور اپنی بیٹی کو ملنے والے زیادہ نمبر ختم کر دیں۔ مگر ایسا ہو گا نہیں کیونکہ انہوں نے یہی کہنا ہے کہ بورڈ نے جو کیا قانون کے دائرے میں رہ کر ہی کیا ہو گا اور اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ بورڈ سے رابطہ کرے۔ جو لوگ معطل چیف جسٹس پر اسی طرح کے فراڈ کا الزام لگاتے ہیں اب پتہ نہیں وہ چیف جسٹس ڈوگر کے حق میں کس طرح کی صفائی پیش کریں گے۔