اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بلوچستان کی صورتحال پہلے ہی خراب تھی اب تین قوم پرست رہنماؤں کے قتل کے بعد بلوچستان کے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں مگر حکومت ہے کہ اسلام آباد کی حدود میں اپنی رٹ پر ہی خوش ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بلوچی لیڈروں کے قتل کے بعد بلوچیوں کے زخموں پر مرحم رکھنے کیلیے ہمارے حکمران بلوچستان جا کر ڈیرے جما لیتے اور تب تک اسلام آباد واپس نہ آتے جب تک وہاں کے حالات ٹھیک نہ ہو جاتے۔ وہاں وہ قوم پرستوں کو اعتماد میں لیتے، کچھ ان کی سنتے کچھ اپنی سناتے اور انہیں قومی دھارے میں داخل کرتے۔

حکومت کی خاموشی اور بے حسی سے تو ایسے ہی لگتا ہے کہ حکومت بلوچستان کے بگڑے ہوئے حالات کو کوئی اہمیت نہیں دے رہی اور اس کی نظروں میں صوبے کی صورتحال اتنی خراب نہیں ہے۔ حکومت شاید یہ بھی سمجھتی ہے کہ دو چار روز کی توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کے بعد صورتحال خودبخود ٹھیک ہو جائے گی یا پھر مسلم لیگ ن کو وفاقی کابینہ میں شامل کر لینے سے صوبے کے حالات خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔

ملک کے حالات جوں جوں بگڑ رہے ہیں ہمارے دشمن بگلیں بجا رہے ہیں اور حکومت کی خاموشی سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ بھی ہمارے دشمنوں کی خوشیوں میں شامل ہے۔ اگر ایسا نہ نہ ہوتا تو بلوچستان کی موجودہ صورتحال پر حکومت کی نیندیں اڑ چکی ہوتیں اور وہ اسے درست کرنے کیلیے ضرور کوشش کرتی۔