وفاقی وزیرمملکت حنا ربانی کھر نے بجٹ پیش کرنے والی پہلی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ لیکن ان کی تیاری ٹھیک نہیں تھی وہ بار بار تقریر پڑھتے ہوئے اٹک رہی تھیں۔ بجٹ میں اسمبلی ارکان کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نہ پرجوش ڈیسک بجائے گئے اور نہ ہی تقریر غور سے سنی گئی۔ حکومت کی بجٹ کی تیاری میں دلچسپی نہ ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ وزیر خزانہ کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ ایک مشیر خزانہ شوکت ترین ہیں اور دوسری وزیر مملکت برائے خزانہ حنا ربانی ہیں جنہوں نے بنا بنایا بجٹ پیش کیا۔ شوکت عزیز کی طرح وزارت خزانہ کا قلم دان وزیراعظم گیلانی نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے تا کہ بڑے بڑے مالی فیصلے کرنے کیلیے کوئی محتاجی نہ رہے۔ لیکن شوکت عزیز تو پھر بھی بینکر تھے گیلانی صاحب کیا ہیں؟
اس بجٹ کو ہم انقلابی بجٹ نہیں کہ سکتے کیونکہ یہ بجٹ پچھلے بجٹ کا تسلسل ہے اور حکومت کی ان کوششوں کا تسلسل ہے جن کی وجہ سے ٹیکس اکٹھا کرنا حکومت کیلیے آسان بنایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایس ایم ایس، سگریٹ، پراپرٹی، سٹاک بروکرز اور بینکوں کی سروسز پر ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے۔
حکومت نے ٹیکس فائل کرنے والوں کی لسٹ میں پانچ سو گز گھر، دو ہزار گز فلیٹ اور ایک ہزار سی سی کاروں کے مالکان کا شامل کر لیا ہے۔ اس طرح انکم ٹیکس فائل کرنے والوں کی تعداد بڑھے گی۔ مگر ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی ذراعت پر کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا گیا کیونکہ وہی جاگیردار تو حکمران ہیں۔
موبائل فون پر ڈیوٹی کم کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آئی کیونکہ یہی ایک صنعت ہے جو ترقی کر رہی ہے اور حکومت اس سے فائدہ اٹھا سکتی تھی۔
تنخواہوں میں اضافہ اس دفعہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے البتہ پولیس کی طرح فوجیوں کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے۔
تعلیم اور صحت پر رقم بڑھائی گئی ہے مگر اتنی نہیں جتنا دفاعی بجٹ بڑھایا گیا ہے۔ تعلیم اور صحت کیلیے مخصوص رقم سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں شعبے حکومت کیلیے کتنے اہم ہیں۔ وجہ سیدھی سی ہے کہ ہماری حکومت کے حکمران کبھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان تعلیم یافتہ اور صحتمند ہو جائے کیونکہ اگر ایسا ہو گیا تو غیرملکی حکمرانوں کی حاکمیت خطرے میں پڑ جائے گی۔
بینظیر انکم سپورٹ فنڈ دگنا کر دیا گیا ہے اور اس کی وجہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں یعنی یہ خالص سیاسی بینادوں پر بانٹا جائے گا تا کہ حکمران ووٹ خرید سکیں۔ مگر بقول جاوید گوندل صاحب کے غریبوں کے ووٹوں کی قیمت بہت کم لگائی گئی ہے۔
ہمیشہ کی طرح اس بجٹ سے عام آدمی کو کوئی ریلیف ملنے والا نہیں اور یہی وجہ ہے ٹی وی پر عام شہری اس بجٹ کو ہمیشہ کی طرح کا بیکار لفظی گورکھ دھندہ قرار دے رہے ہیں۔
ترقیاتی اخراجات کیلیے کافی رقم مختص کی گئی ہے جس میں تمام صوبوں میں ڈیم بنانے کے منصوبے بھی شامل ہیں مگر اس دفعہ بھی لگتا ہے مالی سال کے آخر میں ترقیاتی بجٹ اندرون خانہ کم کر دیا جائے گا اور کئی پروجیکٹس شروع ہونے سے پہلے ہی داخل دفتر کر دیے جائیں گے۔
ہماری سوئی وہیں آ کر اٹکتی ہے کہ جب حکومت کی نیت میں ہی فتور ہو تو پھر اس کا ہر عمل مشکوک ہی ہو گا۔ جب حکومت خود کسی کی محکوم ہو تو وہ عام آدمی کو کیا ریلیف دے گی۔ وہ تو اپنے حاکموں کے احکامات کی پابندی کرے گی جن کا عام آدمی کیساتھ اینٹ کتے کا بیر ہے۔ کاش ہمارے حکمران یہ سمجھ جائیں کہ ان کے حاکم کبھی نہیں چاہیں گے کہ عوام خوشحال ہوں اور پاکستان ترقی کرے کیونکہ پاکستان کی ترقی ان کی موت ہے۔