ذوالفقار علي بھٹو نے اسلام کے نام پر چلائي جانے والي تحريک کو ٹھنڈا کرنے کيلۓ جہاں اور بہت سارے اقدامات کۓ وہيں جمعہ کي ہفتہ وار چھٹي کا بھي اعلان کر ديا۔

اس کے بعد جنرل ضياء نے جب گيارہ سال اسلام کو افغانستان کي جنگ ميں امريکہ کے اتحادي کے طور پر استعمال کيا تو انہوں نے بھي جمعہ کي چھٹي کو بحال رکھا۔ پھر بے نظير اور نواز شريف کي يکے بعد ديگرے دو دو دفعہ حکومتيں آئيں تو يہ موضوع زيرِ بحث رہا۔ حالانکہ جنرل ضياء کي رخصتي کے بعد ايک طبقہ جمعہ کي بجاۓ اتوار کي چھٹي کا دبے لفظوں ميں مطالبہ کرتا رہا۔ اس کا يہي بہانہ تھا کہ جب ہم جمعہ کي چھٹي کرتے ہيں تو اس طرح يورپ ميں ہفتہ اتوار کي چھٹيوں کي وجہ سے ہمارے ہفتے کے تين دن ضائع ہو جاتے ہيں۔ آخرکار نواز شريف نے اسلام کا دم بھرنے کے باوجود جمعہ کي چھٹي کو اتوار ميں بدل ديا۔

 جب روشن خيالوں کا دور آيا اور ان کو غيرملکي حمائيت بھي ورثے ميں ملي تو انہوں نے جمعہ کي بجاۓ اتوار کي چھٹي کو برقرار رکھا۔ حکومت کے پاس وہي کمزور دليل تھي کہ کاروباري لوگوں کے ہر ہفتہ تين دن ضائع ہورہے ہيں۔

 بلکہ شروع شروع ميں تو وفاقي محکموں ميں دو دن کي چھٹي دے دي گئي جب کہ باقي ملک ميں ايک ہي دن کي چھٹي برقرار رہي۔ اس کے بعد حکومت کے دل ميں پتہ نہيں کيا آيا کہ وفاقي چھٹي دو دن کي بجاۓ ايک دن کردي گئي اور صرف مہينے ميں ايک دن لانگ ويک اينڈ شروع کر ديا گيا جو اب تک جاري ہے اور حکومت نے وفاقي اداروں میں {جن ميں آرمي کا محکمہ بھي شامل ہے} پہلے دو دن کي چھٹي اور پھر لانگ ويک اينڈ کي وجہ تک بيان کرنا مناسب نہ سمجھا۔

ہم اس وقت لانگ ويک اينڈ کي چھٹي کي بحث کو پھر کسي روز کيلۓ مؤخر کرتےہيں اور صرف جمعہ کي بجاۓ اتوار کي چھٹي کي بات کرتے ہيں۔

پہلي بات تو يہ ہے کہ حکومت نے جو دليل تين دن کے ضائع ہونے کي دي وہ بہت کمزور ہے۔ کيونکہ ہمارے ملک کے صرف ايک فيصد تاجر ايسے ہوں گے جو يورپين ملکوں کے ساتھ تجارت کرتے ہوں گے۔ اس کے علاوہ پورے مڈل ايسٹ ميں جمعہ کي چھٹي عرصے سے چل رہي ہے حالانکہ مڈل ايسٹ کا ہم سے زيادہ کاروبار يورپي ملکوں کے ساتھ ہوتا ہے اور اس طرح ان کو زيادہ نقصان ہورہا ہوگا۔ مڈل ايسٹ کا سب سے زيادہ تيل يورپين ملک ہي استعمال کرتے ہيں جس کا روزانہ کروڑوں ڈالرز کا بزنس ہوتا ہے۔ مگر مڈل ايسٹ نے جمعہ کي چھٹي بدلنے کا کوئي بہانہ نہيں گھڑا اور ان کا کاروبار بھي ويسا ہي چل رہا ہے۔

دراصل چونکہ ہم کچھ زيادہ ہي غير ملکي آقاؤں کے فرمانبردار واقع ہوۓ ہيں اور پچھلے چند سالوں سے ہمارے ملک ميں اسلامي بيداري سے يورپ کو کچھ زيادہ ہي خطرہ محسوس ہونے لگا ہے۔ اسي لۓ ہم نے ان کي خوشنودي کي خاطر اتوار کي چھٹي کا اعلان کرديا۔ ہم نے يہ تک نہيں سوچا کہ ہفتہ اتوار کي چھٹي يورپ ميں ان کي مزہبي چھٹي ہے تاکہ وہ بڑے آرام سے گرجے جا سکيں۔ مگر ہم نے مسلمانوں کے منتخب کردہ جمعہ کے دن کي اہميت سے لوگوں کو دور رکھنے کيلۓ يہ قرباني بھي دے دي ہے تاکہ يورپ ہميں روشن خيال تصور کرسکے۔

ليکن دوسري طرف اگر آپ غور کريں تو ہم مسلمانوں کو بہت بڑي نعمت سے دور کر ديا گيا۔ جو خوشي جمعہ کي چھٹي کے ساتھ جمعہ پڑھنے اور اس طرح کے اور مزہبي کام کرنے ميں جمعہ کے دن ہوسکتي ہے وہ اتوار کي چھٹي کے ساتھ نہيں۔ آپ لوگوں نے غور کيا ہوگا کہ اتوار کي چھٹي کے ساتھ ہي جمعہ کي نماز ميں لوگوں کي حاضري کم ہوچکي ہے۔ ہمارے ہاں کتنے کارخانہ دار اور کاروباري لوگ ہوں گے جو مزدوروں کو جمعہ پڑھنے کا وقت تنخواہ سميت ديتے ہوں گے اور مزدوروں ميں اتني سکت نہيں کہ وہ اپني نوکري کو داؤ پر لگا کر جمعہ کي نماز پڑھنے جاسکيں۔

حکومت کو اتوار کي چھٹي کرنے کي ہمت تب ہوئي جب اس نے ديکھا کر بڑے بڑے قومي فيصلوں پر عوام نہيں بولي تو پھر چھٹي کي تبديلي پر بھي نہيں بولے گي۔ ايک تو ہم ويسے ہي مزہب سے دور ہوتے جارہے ہيں اور رہي سہي کسر حکومتيں پوري کررہي ہيں۔

ہم اس بات کے حق ميں ہيں کہ مسلمانوں کي اکثريت کے سارے علاقوں ميں جمعہ کي چھٹي ہوني چاہيۓ اور ايسا قانون پاس کرنا چاہيۓ کہ کوئي آنے والي حکومت اس چھٹي کو بدل نہ سکے۔ عوام سے درخواست کرتے ہيں کہ جب بھي وہ غفلت کي نيند سے بيدار ہوں تب حکومت کو مجبور کريں کہ وہ اتوار کي بجاۓ جمعہ کي چھٹي کيا کرے۔