یاسر مرزا صاحب نے زندگی کے ایک بہت اہم پہلو پر قلم اٹھایا ہے اور ہم امید کرتے ہیں باقی بلاگرز بھی اس موضوع پر ضرور لکھیں گے۔ چلیں ہم ان سے وعدے کے مطابق ابتدا کرتے ہیں۔ مسئلہ کیا ہے سب کو معلوم ہو چکا ہے اسلیے ہم ڈائریکٹ اس کا حل تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔
ہم اس موضوع پر پہلے بھی کئی بار اظہار خیال کر چکے ہیں اور سمجھیں کہ ہمیں اس موضوع پر دسترس حاصل ہے کیونکہ ہم نے ستر کا دور بھی دیکھا ہے جب لوگ دبئی گئے اور پھر اسی کا دور بھی جب دبئی والے لوگوں کی بیویوں کی اکثریت گمراہی کا شکار ہوئی، بچے سکولوں سے بھاگ گئے اور چالاک رشتے دار اور محلے دار ان کی دولت پر ہاتھ صاف کر گئے۔ ان لوگوں کی اکثریت جب دبئی سے واپس آئی تو ان کی معاشی حالت وہیں تھی جہاں سے دس پندرہ سال قبل انہوں نے آغاز کیا تھا ہاں کچھ کے مکان پکے بن چکے تھے اور بچے دبئی جانے کیلیے بیتاب بیٹھے تھے۔
دراصل ہمیں ان لوگوں سے سخت چڑ ہے جو شادی کے ایک دو ماہ بعد ہی بیوی کو سسرال اور معاشرے کے حوالے کر کے پردیس چلے جاتے ہیں۔ پتہ نہیں وہ لوگ پردیس میں کیسے وقت گزارتے ہیں اور ان کی بیویوں کا اس عرصے میں کیا حال ہوتا ہے مگر چانسز اسی فیصد سے زیادہ ہیں کہ ان کی بیویاں بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ بیرون مقیم ممالک افراد کی بیویاں مکار، عیار اور بدمعاش مردوں کیلیے بہت آسان ٹارگٹ ہوتی ہیں جنہں وہ پیار، محبت، تحفے تحائف سے گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کبھی وہ محلے دار کے پیار کا شکار ہو جاتی ہیں تو کبھی جیٹھ یا دیور کی ہمدردی کا، کبھی وہ کسی کزن کی مکاری میں پھنس جاتی ہیں تو کبھی سسر کی شیطانیت کا لقمہ بن جاتی ہیں۔ لیکن وہ بھی کیا کریں قصور ان کا بھی نہیں ہوتا۔ اگر عورت کنواری ہے تو پھر چانسز زیادہ ہیں کہ وہ مرد کے بغیر زندگی گزار سکے مگر جب اس کی شادی ہو گئی اور اسے مرد کیساتھ زندگی گزارنے کا مزہ آنے لگا تو پھر اسے بے راہ روی سے روکنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ کچھ آدمی اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی بیوی کے پاس واپس آ جاتے ہیں لیکن اکثریت یا تو اپنی بیوی کو پاک باز سمجھتی رہتی ہے یا پھر آنکھیں بند کیے رکھتے ہیں۔ کچھ آدمی ایسے ہوتے ہیں جن کو جونہی بیوی کی بے راہ روی کا علم ہوتا ہے وہ اسے طلاق دے کر معاشرے میں بے یارومددگار چھوڑ دیتے ہیں۔
اب جو لوگ سمجھ رہے ہیں کہ ہم ان کی مجبوریوں پر ہنس رہے ہیں تو ان سے ہم معذرت چاہتے ہیں مگر حقیقت یہی ہے چاہے آپ اسے مانیں یا نہ مانیں۔ ہمارے خیال میں ایسے لوگوں کو پہلے تو شادی کرنی ہی نہیں چاہیے اور اگر شادی کر لیں تو پھر اپنی فیملی کو زمانے کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیے، چاہے اس کیلیے پردیس چھوڑ کر پاکستان میں دھکے ہی کیوں نہ کھانے پڑیں۔ دراصل ہم پردیسی لوگوں کی اکثریت نے ملک اس لیے چھوڑا کیونکہ ہم تن آسان تھے اور اپنے معاشرے کا مقابلہ کرنے کی ہم میں ہمت نہیں تھی وگرنہ جو لوگ پاکستان میں رہ گئے اور انہوں نے ہمت کی وہ ہم سے بھی آگے نکل گئے۔ اس لیے اب ہم نے یہ جانا ہے کہ محنت کہیں بھی کی جائے اس کا صلہ ملتا ہے مگر وقت پر۔ اس لیے یہ سوچنا کہ پاکستان میں ہمارا گزارہ نہیں ہوگا یہ غلط ہے۔ آپ لوگ اپنے بیوی بچوں کے پاس جائیں اور یقین کریں روکھی سوکھی میں جو مزہ آئے گا وہ یورپ کے فاسٹ فوڈ سے زیادہ ہو گا۔
یہ بھی کوئی زندگی ہے شادی کی، باہر چلے گئے، سال بعد ایک ماہ کیلیے گھر آئے اور اس طرح جوانی کے تیس سالوں میں آپ نے اپنی فیملی کیساتھ تیس ماہ گزارے۔ ان تیس مہینوں کے صدقے ان کے ہاں ہاں بچے پیدا ہوئے یا تیس سالوں کے صدقے یہ اللہ جانتا ہے، جو ان کے ریٹائر ہونے پر باہر چلے گئے۔ وہ جو جوانی اکیلے گزار چکے تھے اب بڑھاپا بھی اکیلے گزارنے لگے۔ حتی کہ ایک دن انہیں دفن ہونے کیلیے بھی بچوں کا پردیس سے آنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔