بی بی سی کے ایک اور ایک فیچر کے مطابق پاکستان میں شرابیوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ اس سے قبل الکوحلزم کے اشتہار اور شراب کی تلفی پر ہم شراب نوشی پر لکھ چکے ہیں مگر ہمیں معلوم نہیں تھا کہ پاکستان میں شراب اس قدر پی جانے لگی ہے یعنی ہر بارہواں پاکستانی شراب پیتا ہے۔
جس طرح شرابیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں پانی کی بجائے شراب کی نہریں بہ رہی ہوں گی اور لوگ لوڈشیڈنگ کا غم غلط کرنے کیلیے شراب سے دل بہلا رہے ہوں گے۔
ویسے سوچنے والی بات ہے کہ ایک مسلمان شراب جیسی حرام چیز کیسے پی لیتا ہے؟ جواب سیدھا سا ہے یعنی اس مسلمان کا ایمان کچا ہے یعنی وہ نام کا مسلمان ہے۔ اس کا آخرت پر یقین ہی نہیں ہے کیونکہ اگر دوزخ کے ہونے کا اسے یقین ہوتا تو وہ کبھی شراب پی کر خود کو جہنمی نہ بناتا۔ ہمیں ان ملازمین کی ہمت کی داد دینی پڑے گی جو یہ جانتے ہیں کہ شراب بنانے، بیچنے اور پینے والے سب جہنمی ہیں مگر پھر بھی پاکستانی شراب فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں۔
ہماری حکومت کو قوم کے شرابی پن کو سنجیدگی سے لینا ہو گا اور اس بیماری کے تدارک کیلیے کچھ کرنا ہو گا۔ ہمارے دشمن تو چاہیں گے کہ ہم دن رات شراب میں مدہوش رہیں تا کہ نہ مسلمان ترقی کریں اور نہ ان کیلیے خطرہ بنیں۔ مگر ہمیں خود اس بیماری سے لڑنا ہو گا۔
اگر فرانس سکارف لینے پر پابندی لگا سکتا ہے تو پاکستان غیرمسلموں کے شراب پینے پر پابندی کیوں نہیں لگا سکتا۔ یہ غیرمسلموں کے پرمٹ ہی ہیں جن کی بنیاد پر مسلمانوں کو شراب مہیا کی جا رہی ہے۔ اگر فرانس کے مسلمان اپنی بچیوں کو سکارف اتار کر سکولوں میں بھیج سکتے ہیں تو غیرملکی بھی شراب کے بغیر پاکستان میں رہ سکتے ہیں۔
مگر کیا کیا جائے جب ملک ہی غیرمسلموں کے قبضے میں ہو تو پھر حکومت بھی بے بس ہو گی اور حزب اختلاف بھی۔ نہ سپریم کورٹ سوموٹو ایکشن لے گی اور نہ وکلاء کوئی تحریک چلائیں گے۔ نہ الیکٹرونک میڈیا شور مچائے گا اور نہ اسمبلی کے ارکان اس پر بحث کریں گے۔ ایسی قوم کو شراب پینے سے کوئی نہیں روک سکتا جس کے سربراہوں کی اکثریت خود شراب پیتی ہو۔