پطرس بخاری کے مضمون “کتے” سے ماخوذ

سیاستدان

ماہر نفسیات سے پوچھا، نجومیوں سے دریافت کیا، خود سر کھپاتے رہے لیکن کبھی سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر سیاستدانوں کا فائدہ کیا ہے؟ سائنسدان کو لیجیے ایٹم بم بناتا ہے، شوگر مل مالک کو لیجیے چینی پیدا کرتا ہے چاہے ذخیرہ اندوز ہی کہلوائے۔ یہ سیاستدان کیا کرتے ہیں؟ کہنے لگے کہ سیاستدان عوام کے خادم ہیں۔ اب جناب خادمیت اگر اسی کا نام ہے کہ ہر آمر کے دربار میں خادم بنے کھڑے رہیں تو ہم اس خادمیت سے باز آئے۔ اسی ہفتے کی بات ہے کہ ایک سیاستدان کا بولنے کو جی چاہا تو اس نے اسمبلی کے اجلاس میں ایک مصرع طرح دے دیا۔ اس کے بعد حزب اختلاف کے بینچ سے ایک رکن نے مطلع عرض کر دیا۔ اب جناب ایک کہنہ مشق سیاستدان کو جو غصہ آیا، نیند سے جاگے اور بھنا کر پوری ہجو مقطع تک کہ گئے۔ اس پر ہجوگوئی کے دلدادہ سیاستدان کے ساتھیوں نے زوروں کی داد دی۔ اب تو حضرت وہ مشاعرہ گرم ہوا کہ کچھ نہ پوچھیے کم بخت بعض تو ہجو کے دیوان اپنے ساتھ لائے تھے۔ کئی ایک نے گالیوں پر مبنی فی البدیہ اشعار کہنے شروع کر دیے۔ وہ ہنگامہ گرم ہوا کہ ٹھنڈا ہونے میں نہ آتا تھا۔ عوام گیلری سے مظاہرہ دیکھ کر لطف اندوز ہوتے رہے۔ سپیکر اسمبلی نے ہزاروں دفعہ “آرڈر آرڈر” پکارا لیکن کبھی ایسے موقعوں پر صدر کی بھی کوئی بھی نہیں سنتا۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ میاں تمہیں کوئی ایسا ہی ضروری مشاعرہ کرنا تھا تو مری کی کھلی ہوا میں جاکر طبع آزمائی کرتے یہ پارلیمنٹ کا تقدس پامال کرنا کون سی شرافت تھی۔

اورپھر ہم دیسی لوگوں کے سیاستدان بھی کچھ عجیب بدتمیز واقع ہوئے ہیں۔ اکثر تو ان میں ایسے قوم پرست ہیں کہ گوری چمڑی کو دیکھ کر قدم بوسی کیلیے تیار ہو جاتے ہیں۔ خیر یہ تو ایک حد تک ان کی فطرت ہے، اس کا ذکر ہی جانے دیجیئے۔ اس کے علاوہ ایک اور بات ہے یعنی ہم نے آموں کی پیٹیاں لیے سیاستدانوں کو جنرلوں کے بنگلوں پر جاتے دیکھا، خدا کی قسم ہم نے وہاں سیاستدانوں میں وہ شائستگی دیکھی ہے کہ عش عش کرتے لوٹ آئے ہیں۔ جوں ہی ہم بنگلے کے اندر داخل ہوئے اندر سے جی سر جی سر کے علاوہ کوئی آواز سننے کو نہیں ملی۔ کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا سیاستدان قطار میں ایسے کھڑے ہیں جیسے غریب عوام چینی کیلیے یوٹیلٹی سٹور کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ سیاست کی سیاست اور غلامی کی غلامی۔

جب تک اس دنیا میں سیاستدان موجود ہیں اور خدمت پر مصُر ہیں سمجھ لیجئے کہ عوام آٹے چینی کیلیے قطاروں میں کھڑے زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں اور پھر ان سیاستدانوں کے اصول بھی تو کچھ نرالے ہیں۔ یعنی ا یک تو متعدی مرض لیڈری کا ہے اور چھوٹی بڑی جماعت سب ہی کو لاحق ہے۔ اگر کوئی بدمعاش سیاستدان کبھی کبھی اپنی لیڈری کو قائم رکھنے کے ليے کسی ٹریفک انسپکٹر کیساتھ الجھ پڑے تو بیچارہ انسپکٹر کیا کرے۔ لیکن یہ کم بخت اسی حرکت کے بعد باز نہیں آتے۔ ان کی بدمعاشیاں تب تک جاری رہتی ہیں جب تک اسمبلی کی رکنیت سے خارج نہیں کر دیے جاتے۔

خدا نے ہر قوم میں نیک افراد بھی پیدا کئے ہیں۔ سیاستدان اس کے کلئے سے مستثنیٰ نہیں۔ آپ نے خدا ترس سیاستدان بھی ضرور دیکھا ہوگا، اس کی شکل میں تپّسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارگناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ ٹھوڑی اکثر چھاتی کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔ اس کے پاس وقت ہی وقت ہوتا ہے کیونکہ وہ الیکشن ہار گیا تھا۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیوجانس کلبی سے ملتا ہے۔ کسی نے ٹی وی پر بلوایا، اس پر فقرے کسے، سامعین کے سامنے رسوا کیا، مگر وہ اسی پر خوش کہ ٹی وی پر نظر آ گیا۔ اس کے پاس اگلے انتخابات کے انتظار کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا کیونکہ باقی راستوں پر چلنے کا فائدہ کیا۔