مسجد ميں مغرب کي نماز ہونے والي ہے اور سب لوگ امام کا نتظار کر رہے ہيں۔

 اس مسجد ميں زيادہ تر عربي نماز پڑھتے ہيں مگر پاکستانيوں اور افريقيوں کي بھي معقول تعداد حاضري ديتي ہے۔ امام مسجد نے اپني غير موجودگي ميں کچھ لوگوں کو امامت کيلۓ مقرر کيا ہوا ہے اور وہ اپني درجہ بندي کے لحاظ سے امامت کراتے ہيں۔

جب مسجد کے گھڑيال نے گھنٹہ بجايا اور امام صاحب پھر بھي نظر نہ آۓ تو مقرر کردہ اماموں کي لسٹ ميں سے ايک صاحب کو جاۓ نماز پر کھڑا کيا گيا اورموٌذن نے تکبير کہنا شروع کردي۔ ابھي تکبير ختم ہي ہوئي تھي کہ ايک طرف سے عربي ميں بڑ بڑ شروع ہوئي اور ايک صاحب جو آگے والي صف میں کھڑے تھے سفوں کو چيرتے ہوۓ پيچھے جاکر کھڑے ہوگۓ۔ بعد میں آنے والوں کو بھي ان کے پاگل پن کي سمجھ نہ آئي کہ جماعت ہورہي ہے اور پيچھے آرام سے کھڑے ہيں۔ جب نماز ختم ہوئی تو ان صاحب نے پھر عربي ميں کچھ بات کي۔ اس کے بعد ايک صاحب نے حاضر امام کو بتايا کہ يہ صاحب چونکہ حافظِ قرآن ہيں اسلۓ وہ کہ رہے ہيں کہ امامت پر ان کا حق تھا۔ ابھي تکرار شروع ہي ہوا چاہتي تھي کہ سامنے والي صف ميں بيٹھے ايک پٹھان نے انہيں چب کرايا اور کہا کہ دعا تو کرلينے دو۔ اس کے بعد ايک بے ضرر مسلمان اٹھے اور انہوں نے آج کے پروگرام اور نمازوں کے اوقات کي تبديلي کا اعلان شروع کرديا۔ اس دوران جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھنے والے عربي نے چند لوگوں کے جمع ہو جانے پر دوبارہ جماعت کرانا شروع کردي۔

اب آپ بتائيں کس کي نماز نہيں ہوئي۔ ان ڈيڑھ دو سو لوگوں کي جنہوں نے باجماعت نماز ادا کي يا پھر اس حافظ کي جو پيچھے کھڑا رہا اور بعد ميں اپني جماعت کرائی۔

ہمارے ہاتھ ميں اگر فيصلہ کرنے کي طاقت ہوتي ہم تو اس ايک آدمي کو مسلمانوں کے درميان تفرقہ ڈالنے کي سزا ضرور ديتے اور ايسي سزا ديتے کہ لوگ عبرت حاصل کرتے۔ آپ کا کيا خيال ہے؟