کچھ عرصہ پہلے جب کسی حکومتی کارندے نے موٹرسائیکلوں کے ہیلمٹ درآمد کۓ تو ہر طرف ان ہیلمٹوں کے استعمال پر زور دیا جانے گا۔ پولیس حرکت میں آگئی اور لوگوں کے چالان ہونے لگے۔ وہ موسم گرما کے دن تھے اور لوگوں کیلۓ سخت گرمی میں یورپ کے موسم کے مطابق تیار کردہ ہیلمٹ پہننا عزاب سے کم نہ تھا۔ سنا ہے جولوگ ہیلمٹ خریدنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے انہوں نے قانون سے بچنے کیلۓ سلور کے برتن اپنے سروں پر ڈال لۓ۔ ہر طرف احتجاج بلند ہوا حتیٰ کہ سیاستدانوں نے بھی شور مچایا مگر حکومت نے ایک نہ سنی۔ یہ پابندی تب تک قائم رہی جب تک سےکاری کارندے کے سارے ہیلمٹ فروخت نہ ہوگۓ۔ ابھی تک ہمارا میڈیا اس حکومتی شخصیت کا نام معلوم نہیں  کرسکا یا پھر جان بوجھ کر گول کرگیا جس نے یہ سارا کھیل کھیلا۔ ہم داد دیتے ہیں ایسی خدمت پر جو حکومت نے اپنے اس کارندے کی کی اور اس کے کسی پرانے احسان کا بدلہ چکایا۔

اب پھر وہی پرانی بھیڑ چال ہے اور بہت کم لوگ ہیلمٹ پہنے نظر آتے ہیں۔ اب پھر کسی حکومتی کارندے کا انتظار ہے جو دوبارہ ہیلمٹ درآمد کرے اور لوگوں کو سیفٹی مہیا کرے۔ ہوسکتا ہے اس دفعہ اس کے ہیلمٹ بروقت فروخت نہ ہوپائیں کیونکہ لوگوں نے اپنے پرانے ہیلمٹ اپنے گھروں میں سنبھال رکھے ہوں گے مگر پھر بھی ابھی بہت سارے لوگوں کے پاس ہیلمٹ نہیں ہوں گے اور کارندہ گھاٹے میں نہیں رہے گا۔ حکومت کی بھی بلے بلے ہوجاۓ گی اور ایک اور کارنامہ اس کے نامہ اعمال میں لکھا جاۓ گا۔ 

خدا ہمیں اس طرح کی خود غرضیوں سے محفوظ رکھے اور خلوصِ دل سے عوام کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرفاۓ۔ آمین