ہم نے پچھلے سال گرمیوں میں ویک اینڈ پر کرکٹ کھیلنی شروع کی تو ایک دبلے پتلے بائیس سالہ لڑکے نے بھی کھیلنا شروع کیا۔ اس کی بیٹنگ اور باؤلنگ سے ہم نے اندازہ لگایا کہ لڑکا عقل کا تھوڑا کم اور جذباتی زیادہ ہے کیونکہ وہ باؤلنگ بہت تیز کرنے کی کوشش میں لائن لینتھ پر کنٹرول نہیں کر پا رہا تھا۔ تھا وہ نمازی مگر تھوڑا خودپسند تھا۔
سیزن ختم ہونے کے بعد سردیوں میں معلوم ہوا لڑکا غائب ہو گیا ہے۔ بعد میں گھر والوں نے بتایا کہ لڑکا پاکستان سے کینیڈا پڑھنے آیا تھا اور اپنی بہن کے پاس رہ رہا تھا۔ اس کے دو تین سمیسٹرز میں نمبر کم آئے تو بہن اور بہنوئی نے اسے خوب جھاڑ پلائی۔ اس جھاڑ کا اس پرمثبت کی بجائے منفی اثر ہوا اور اگلے ہفتے وہ گھر سے غائب ہو گیا۔ اس کے دوست نے بتایا کہ وہ اسے پاکستان کی فلائٹ کیلیے ایئرپورٹ چھوڑ کر آیا تھا۔
پہلے تو ایئرپورٹ سے پتہ ہی نہ چلا کہ وہ پاکستان گیا کہ نہیں۔ اس کے رشتے داروں نے اسے پاکستان اور کینیڈا دونوں جگہ تلاش کرنا شروع کر دیا۔ یہ تلاش جوں جوں لمبی ہوتی گئی گھر والوں کی پریشانی میں اضافہ ہوتا گیا۔ بعد میں جب یہ ثابت ہو گیا کہ وہ پاکستان چلا گیا ہے تو ساری توجہ پاکستان پر مرکوز ہو گئی۔ اس کے باپ نے پولیس میں رپورٹ درج کرا رکھی تھی۔ آخرکار کئی ماہ کی تلاش رنگ لائی اور معلوم ہوا کہ وہ اسرار احمد کی اکیڈمی میں پڑھ رہا ہے اور وہیں اس کی رہائش ہے۔ یہ معمہ پولیس والوں نے حل کیا۔ اس کے مل جانے سے پہل پولیس ایک آدھ دفعہ اس سے پوچھ گچھ کر چکی تھی مگر ہر دفعہ وہ غلط نام بتا کر بچ جاتا رہا۔
بیوقوفی کی انتہا دیکھیے کہ اچھی بھلی تعلیم کا موقع ضائع کیا اور اپنی نالائقی کی سزا اپنے رشتے داروں کو دی۔ بھئی اگر تم پڑھ نہیں سکتے تھے تو پہلے ہی گھر والوں کو بتا دیتے۔ وہ یا تو کینیڈا میں ہی تمہیں سیٹل کرا دیتے یا پھر تمہارے والدیں کوئی اور تدبیر کرتے۔ اسی طرح چند سال قبل ہمارے دوست نے اپنے چھوٹے بھائی کو کینیڈا اعلٰی تعلیم کیلیے بلایا۔ وہ تین سال یونیورسٹی جاتا رہا اور جب بھائی کےچالیس لاکھ روپے خرچ ہو چکے تو اس نے ہاتھ کھڑے کر دیے اور تعلیم ادھوری چھوڑ کر پاکستان چلا گیا۔
کیا یہ بیوقوفی نہیں کہ ہم خود کو ہی اندھیرے میں رکھیں۔ ہم نے اس طرح کی کئی مثالیں دیکھی ہیں جب لوگ جوش میں آ کر ہم عصروں کی دیکھا دیکھی لمبی چھلانگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں مگر اپنی افیمچی طبیعت کی وجہ سے ناکام رہتے ہیں۔ آدمی کو وہی کرنا چاہیے جو وہ کر سکتا ہے اور پھر شروع میں ہی فیصلہ کر لینا چاہیے کہ وہ اس کام کے قابل ہے کہ نہیں۔ اس بیوقوفی کے پیچھے شیخ چلی جیسے خوابوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ بیوقوف آدمی خواب دیکھتا ہے مگر ان کی تعبیر پانے کیلیے محنت نہیں کرتا۔ پہلے وہ ہر کام کو آسان سمجھ کر کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر جب وہ اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے ناکام ہونے لگتا ہے تو پھر اپنی کمزوری پر حتٰی الوسیع پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی کوشش میں وہ اپنا اور دوسروں کا قیمتی وقت اور سرمایہ ضائع کر دیتا ہے۔ آدمی وہی عقل مند ہے جو وقت پر طے کرے کہ اس نے جو کام شروع کیا ہے اسے مکمل کر بھی سکتا ہے کہ نہیں اور انتہائی عقلمند وہ ہے جو کام شروع کرنے سےپہلے طے کر لیتا ہے کہ وہ یہ کام کر کے رہے گا۔
10 users commented in " کیسے کیسے لوگ – بیوقوف "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآپکی یہ پوسٹ موضوع اور متن کے لحاظ سے بہت مفید ہے۔ اپنی شخصی خوبیوں اور خامیوں کا ادراک بہت ضروری ہے ورنہ انسان خواب ہی دیکھتا رہ جاتا ہے۔ آپکی یہ بات بالکل صحیح ہے کہ دوسروں کی دیکھا دیکھی کام کرنے کے بجائے اپنی صلاحیتوں پہ بھی نظر ڈالنا اہم ہے۔ لیکن یہ چیز تو اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب ہم غیر جانبداری سے اپنا تجزیہ کرتے ہیں یا کر پاتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے یہاں عام چلن یہ ہے کہ بچوں کو کیا کرنا ہے اسکا فیصلہ والدین کرتے ہیں۔ اس طرح کی چمچہ خوری کے بعد لوگ خود سے فیصلہ کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ والدین کا ایک اہم فرض بچوں میں خود انحصاری پیدا کرنا بھی ہے۔ انکے اندر یہ خوبی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے کہ وہ خود سے فیصلہ کر سکیں۔ جب وہ فیصلہ کر لیں تو پھر والدین اس میں اپنا مشورہ شامل کریں۔
بہت عمدگی کے ساتھ آپ نے نہایت اہم موضوع پر لکھا ہے۔۔۔
ایسے واقعات میں صرف اولاد کا نہیں والدین کا بھی قصور ہوتا ہے
ہمارا قومی چلن ہی یہ ہے کہ ہم اپنے فیصلے اپنے لئے نہیں اوروںکے لئے یا ان کی دیکھا دیکھی کرتے ہیں سو من حیث القوم قوت فیصلہ سے محروم ہیں۔ آپ خود ہی دیکھئے ساٹھ سے اوپر برس گزرے ہمیںیہ ہی نہیںعلم کہ ہمیںنظام حکومت کیسا چاہئے؟ قانون کیسا چاہئے؟ کردار کیسا چاہئے؟ سو یہ المیہ انفرادی نہیں اجتماعی ہے۔
salam
acha topic hai aisa pakistan mai aksar hota hai paisa bhi zaya hota hai aur waqt bhi
mai urdu likhna chah rahi thi magar phir bhi yehi likh saki hoon sab ko yeh problem hai ya sirf mere sath ho raha hai
سعدیہ جی ہمیںتو کوئی پرابلم نہیںہو رہی۔ آپ اپنی سیٹنگز چیک کیجئے۔
پاکستان میں career counseling کا فقدان بہت پرانا ہے۔ یہاں اکثر و بیشتر نوجوان اپنے والدین، بڑے بہن بھائیوں، دوستوں کی خواہشوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس میں کسی حد تک قصور ہمارے تعلیمی نظام کا بھی ہے جس میں پائے دار رٹا فکیشن کو امتحانات میں کامیابی کا گر سمجھا جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ اچھا شاگرد اچھا استاد بھی ہو لیکن ہمارے یہاں زبردستی ڈاکٹر، وکیل اور پتا نہیں کیا کیا بن جانے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
ممکن ہے جس نوجوان کا اوپر ذکر ہوا، وہ اپنے بھائی کے دباؤ پر بیرون ملک گیا ہو جبکہ اس کا ذہن مذہبی تعلیمات کی طرف راغب ہو۔ ایسے میں نوجوان کو دوش دینا مناسب محسوس نہیںہوتا۔
لوگ باھر جانے کیلئے مرتے ہیں اور وہ خود واپس آگیا۔ کمال ہے
http://ejang.jang.com.pk/11-17-2009/pic.asp?picname=07_05.gif
والدین بھی اکثر جی بچوں کی اس بات پر کہ “تعلیم اس کے بس کی بات نہیں“ پر دھیان نہیں دیتے کہتے ہیں کہ حرام خور جان چھرا رہا ہے
پھر جب ان کے اپنے “چھکے چھوٹ“ جاتے ہیں تو ایسی تحاریر وجود میں آتی ہیں
ہمارے معاشرے میں یہ بھی تو ایک کیڑا ہے کہ ڈاکٹر یا انجنئیر ہی بننا ہے
ورنی نالائقی کی تا ابد چھاپ
Leave A Reply