جب حکومت کرپٹ ہو اور اپوزیشن افیم کھا کر سوئی ہوئی ہو تو پھر جو چاہے کرو تم جنگل کے شیر ہو۔ جب این آر او سے فائدہ اٹھانے والے وزیرِ داخلہ یہ کہیں کہ قرضے معاف کرانے والوں پر مقدمے چلائے جائیں گے تو بھلا کون یقین کرے گا۔ موجودہ حکومت نے بھی ڈکٹیٹر مشرف کی طرح اسمبلی کی موجودگی میں آرڈینیسوں سے ہی اگر کام چلانا تھا تو پھر جمہوریت کا کیا فائدہ؟

موجودہ حکومت کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ نہ تو مہنگائی ہے، نہ کرپشن، نہ بے روزگاری اور نہ معاشرتی بے راہ روی۔ موجودہ حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے دہشت گردی۔ جس طرح جنرل ضیاع نے افغانستان میں روس کیخلاف لڑتے ہوئے گیارہ سال پورے کئے اور جنرل بشرف نے آٹھ سال دہشت گردی اور طالبان مخالفت میں آٹھ سال حکومت کی، اسی طرح موجودہ حکومت بھی دہشت گردی کیخلاف جنگ کی آڑ میں پانچ سال پورے کرے گی اور اگر اس کی معیاد پوری نہ بھی ہوئی تو آنے والی حکومت اس کا مشن پورا کرے گی۔ ایسے ہی جیسے موجودہ حکومت جنرل بشرف کا مشن پورا کر رہی ہے۔

وزیراعظم ہوں یا صدر جب بھی غیرملکی دورے پر جاتے ہیں، نہ وہ کوئی بڑے تجارتی معاہدے پر دستخط کرتے ہیں اور نہ کسی انڈسٹری کا سودا کرتے ہیں۔ بلکہ وہ دہشت گردی کیخلاف بیانات دیتے ہیں اور اس کے بدلے بھیک مانگ کر واپس لوٹ آتے ہیں۔

ان حالات میں چاہے بجلی مہنگی ہو یا تیل، عوام خاموش ہے اور اسی خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت من مانیاں کر رہی ہے۔ بشرف اور موجودہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے عوام کے دلوں میں دہشت گردی کا خوف اس قدر بٹھا دیا گیا ہے کہ وہ بھوکے پیٹ کی بجائے اپنی جانوں کی زیادہ پرواہ کر رہے ہیں۔

حالات تو کسی بڑے لیڈر کی آمد کا اشارہ کب سے دے رہے ہیں مگر پتہ نہیں کیوں سب سیاستدان گیدڑ بنے بیٹھے ہیں۔ لگتا ہے کوئی بڑی طاقت انہیں کنٹرول کر رہی ہے اور اپنی جان کی امان پا کر اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ عوام اپنی باری کب لیتے ہیں؟