امیر عید کا مزہ کیا جانیں جن کا ہر دن عید اور ہر رات شبِ برات ہوتی ہے۔ اصل عید تو غریبوں کی ہوتی ہے جنہیں سال میں ایک دو بار پیٹ بھر کر کھانے کو ملتا ہےاور جو سال میں صرف عيد پر نۓ کپڑے پہنتے ہيں۔ پھر اسی سوٹ پر پورا سال گزارتے ہیں اور اگلی عید کا انتظار کرنا شروع کردیتے ہیں۔  جو مزہ غريب کونيا جوڑا پہن کر آتا ہوگا وہ امير کو کہاں کيونکہ امير تو ہر روز نۓ کپٹرے پہنتا ہے۔

روزے رکھ کر جو مزہ عيد منانے کا آتا ہے وہ بےروزگاروں کو نہيں آتا ہوگا۔ ابھي آج کے اخبار ميں ايک دہريۓ رپورٹر نے ايک مسلمان کيساتھ روزے کا دن گزارا۔ اسي کيساتھ سحري اور افطاري کي ۔ پھر اس نے مسجد جاکر تراويح بھي پڑھي۔ اس نے يہ ساري روداد اخبار ميں رپورٹ کي۔ اس کي رپورٹنگ ميں سب سے جاندار يہ بات تھي۔ کہنے لگا اس نے جب بھي کبھي پہلے کھجور کھائي اس کا وہ مزہ نہيں آيا جو روزہ افطاري کے بعد کھجور کيساتھ روزہ کھولتے وقت آيا۔  يعني اصل مزہ کھانے کا تو بھوکے پيٹ ہي آتا ہے اور بھوکے پيٹ کھانا غيرب کھاتا ہے امير نہيں۔

امير روزانہ کھانے ميں گوشت کھاۓ گا اور آخر ميں اسے سويٹ ڈش بھي پيش کي جاۓ گي۔ مگر غريب کو گوشت صرف دو مواقع پر نصيب ہوتا ہے۔ ايک کسي عزيز کي شادي پر اور دوسرے عيد پر۔ اسي لۓ غريب ان دو مواقع پر جس طرح کھانے پر ٹوٹتا ہے اور جو کھانے کا مزہ اسے آتا ہے وہ امير فائيو سٹار ہوٹل ميں بھي کھانا کھا کر نہيں ليتا ہوگا۔

لگتا ہے يہ خوشيوں کے تہوار بنے ہي غريب کي دکھوں بھري زندگي ميں خوشياں بانٹنے کيلۓ ہيں۔ اگر ساري دنيا امير ہوتي تو شائد يہ تہوار نہ ہوتے۔