سیاست اور منافقت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ منافقت کے بناں سمجھ لیں سیاست ادھوری ہے اور جس کو منافقت نہیں آتی وہ سیاستدان نہیں ہے۔

ابھی آج کی بات ہے کہ پنجاب حکومت نے پہلی بار صوبائی اور قومی اسمبلی کے ارکان کو اضافی ترقیاتی فنڈ جاری کرنے شروع کردیۓ ہیں۔ اس سے پہلے بجٹ میں صوبائی ممبرانِ اسمبلی کیلۓ ترقیاتی فنڈ کی مد میں رقم مخصوص کی گئ تھی لیکن اب اس کے علاوہ ہر صوبائی اسمبلی کا ممبر پانچ کروڑ روپے اور قومی اسمبلی کا ممبر تین کروڑ روپے عوامی بیت المال سے وصول کرے گا اور پھر یہ اس کی صوابدید پر ہوگا کہ وہ کتنی رقم عوامی بہبود پر خرچ کرتا ہے اور کتنی رقم حرام کاری کی مد میں اپنی جیب میں ڈال لیتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ چونکہ اب الیکشن قریب ہیں اور ممبرانِ اسمبلی اب اپنے اپنے علاقے میں ایک آدھ گلی پکی کرائیں گے، صاف پانی کے دو چار نلکے لگوائیں گے یا پھر یہ رقم اپنے حواریوں کو بانٹ دیں گے تاکہ اگلے الیکشن میں ووٹ حاصل کرنے کیلۓ ان کے پاس کوئی تو جواز ہو۔

چلیں یہ تو سمجھ آئی کہ صوبائی ممبرانِ اسمبلی کو صوبائی بجٹ میں سے رقم مل رہی ہے مگر قومی ممبرانِ اسمبلی کس خوشی میں صوبائی بجٹ سے اپنا حصہ وصول کر رہےہیں۔

ہمارے عوام بھی بیوقوف ہیں وہ یہ نہیں دیکھیں گے کہ ان کے ممبر نے چار سال تو کچھ نہیں کیا اور اب الیکشن قریب آیا تو ایک آدھ دکھاوے کا کام کردیا۔ ہوسکتا ہے عوام کو یہ پہلے سے خبر ہو کہ ممبرانِ اسمبلی اسی طرح کرتے ہیں اور صرف پاکستانی ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے ممبرانِ اسمبلی اس منافقت کے کھیل میں شریک ہیں۔

ایک مشہور لطیفہ ہے۔ تین دوست بیٹھے اپنے بچوں کے مستقبل کے پلان بنا رہے تھے۔ ایک کہنے لگا میرا بیٹا چاہتا ہے کہ وہ ایسا کام کرے جس میں اسے پانچ سو روپے روزانہ ملیں۔ اسلۓ میں اسے پولیس میں بھرتی کراؤں گا۔ دوسرا کہنے لگا میرا بیٹا تو کہتا ہے کہ وہ کوئی ایسا کام کرے گا جس ميں اسے پانچ ہزار روپے روزانہ ملا کریں اور میں نے اسے کسٹمز میں بھرتی کرانے کا سوچ رکھا ہے۔ تیسرا کہنے لگا میرا بیٹا چاہتا ہے کہ وہ کام بھی نہ کرے اور اسے روزانہ دس ہزار روپے بھی ملیں۔ اسلۓ میں نے سوچا ہے کہ اسے سیاستدان بناؤں گا۔

امریکہ میں بھی جب الیکشن قریب آتے ہیں تو اس کا موجودہ صدر دوبارہ صدر بننے کیلۓ کئ بل پاس کردیتا ہے اور کئ ایسےا قدامات عوامی بہبود کے کرتا ہے جو اسے شروع میں کردینے چاہیئں تھے۔ کہتے ہیں ہر امریکی صدر اپنی پہلی ٹرم میںدوسری ٹرم کی نسبت زیادہ کام کرتا ہے کیونکہ دوسری ٹرم میں اسے پتہ ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ الیکشن نہیں لڑسکے گا۔

اس بار بھارت میں ہندو ليڈروں نے مسلمانوں کو افطار پارٹياں دي ہيں اور اس کے بعد ان کي مساجد ميں اگلي صفوں پر کھڑے ہوکر نماز بھي پڑھي ہے۔ اب اگر آج ہندوليڈر مسلمانوں کيساتھ نماز پڑھ رہے ہيں تو کل کو ہندوستاني مسلمان ليڈر ہندوؤں کے مندر ميں پوجا پاٹ بھي کرنے میں کوئي ہرج نہيں سمجھا کريں گے۔ پاپ پيٹ آدمي کو کيا کيا کرنے پر مجبور کرديتا ہے۔ اب تو منافقت سياست کيلۓ ضروري ہوچکي ہے۔ سياست کيلۓ آدمي دين دھرم سب بھول جاتا ہے اور اسے صرف اپني کرسي ياد رہ جاتي ہے۔ کيا يہ حيراني والي بات نہيںکہ سادہ لوح لوگوں کو بيوقوف بنانا اس جديد دور ميں اب بھي ممکن ہے۔

ہمارے ملک میں بھی سیاست دان باقی دنیا کی طرح منافقت کا کھیل مختلف طریقوں سے کھیلتے آۓ ہیں۔ کبھی وہ بھرے مجمے ميں ایسا وعدہ کرجاتے ہیں جو کبھی ایفا نہیں ہوتا۔ کبھی آپ کے سامنے دھڑلے سے جھوٹ بول کر اپنی کارکردگی بیان کریں گے کہ آپ کو اندر ہی اندر ان پر ہنسی آۓ گی۔ کبھی اپنے حریفوں کو بھرے مجمے میں اس طرح مخاطب کریں گے جیسے وہ ان کا سب سے بڑا دشمن ہو مگر بعد میں اسی کیساتھ ملکر گپ شپ لگا ر ہے ہوں گے۔ جب آپ حکومت میں ہیں تو آپ کے آگے پیچھے ہوں گے اور جونہی آپ کی چھٹی ہوئی ان منافقوں نے  نہ صرف آپ کی چھٹي کردی بلکہ آپ کونیچا دکھانے کیلۓ آپ کے دشمنوں کیساتھ جا ملے اور پھر بھی پیٹریاٹ کہلاۓ۔ ابھی کل کی بات ہے چوہدری برادران نواز شریف کے دائیں بازو تھے اور اب وہ نواز شریف کا نام گالی کے بناں لیتے نہیں ہیں۔

 لیکن ڈرنا چاہۓ برے دنوں سے کیونکہ جب ایسے لوگوں کی شامت آتی ہے تو پھر انہی کی منافقت انہیں لے ڈوبتی ہے اور کوئی بھی ان کی مدد کونہیں پہنچتا بلکہ سب باہر کھڑے تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔

اے خدا ہمیں نیک، صالح، ایماندار، محبِ وطن اور پرخلوص لیڈر چننے کی توفیق عطا فرما۔ آمین