12 اکتوبر، 1999

بارہ اکتوبر کے واقعہ کي تفصيل پرويز صاحب نے اس قدر وضاحت سے بيان کي ہے کہ سارا سارا منظر قاري کي نظروں کے آگے گھوم جاتا ہے۔ اس ساری واردات میں پتہ نہیں کیوں پرویز صاحب نے اپنے آپ کو مظلوم بننے کی بجاۓ بہادر بننا پسند کیا ہے۔ وہ ہر جگہ یہی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کمانڈو ہیں جو کسی سے نہیں ڈرتے۔

جب نواز شریف نے پرویز مشرف کو ہٹا کر ضیاءالدین بٹ صاحب کو نیا چیف مقرر کردیا تو فوج میں ہلچل مچ گئ۔ یہاں پر ایک چیز کی سمجھ نہیں آئی۔ جب جنرل ضیاءالدین بٹ کو چیف بنا دیا گیا تو پھر فوج نے اپنے چیف کی حکم عدولی کیوں کی۔ ہوسکتا ہے فوج ميں بھی گروپ بندی ہوتی ہو اور جنرل ضیاءالدین بٹ صاحب کا گروپ کمزور ہو۔ بہرحال ثابت یہی ہوا کہ چاہے سول ادارے ہوں یا فوجی ہر جگہ گروپ بندی اور خود غرضی موجود ہوتی ہے۔ اسی لۓ فوج کے طاقتور گروپ نے اس وقت جنرل ضیاءالدین بٹ کو چیف ماننے سے انکار کردیا اور پرویز مشرف کو چیف برقرار رکھا۔ یہیں سے نواز شریف کی بدبختی شروع ہوتی ہے کہ جس نے پانی میں رہ کر مگر مچھ سے بیر ڈالا اور آخر کار اقتدارسے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اس پر نواز شریف نے سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ جنرل پرویز مشرف کے طیارے کو پاکستان اترنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔

يہ بات سب جانتے ہيں کہ یہ نواز شریف خاندان کی خاندانی عادت رہی ہے کہ اپنے آگے کسی کو کچھ نہیں سمجھتے- جن لوگوں نے ان کے ساتھ کاروبار کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ میاں خاندان کا سارا کاروبار بدمعاشی اور ظلم کی بنیاد پر قائم تھا۔ انہوں نے ملک کو بھی انہی اصولوں پر چلانے کی کوشش کی جن پر وہ اتفاق فاؤنڈری کو چلا رہے تھے۔ وہاں بھی ابا جی کا راج تھا اور حکومت میں بھی ابا جی کو اولیت دی گئ۔

يہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ اچھے دنوں ميں ابا جی یعنی میاں شریف جب اتفاق فاؤنڈری کے چیئرمین تھے تو وہ فاؤنڈری کا صبح صبح چکر لگایا کرتے تھے۔ ان کے چکر کا مقصد ضرورت مند ورکروں کی حاجتیں سننا اور اپنے ذاتی ملازموں یعنی فورمینوں سے تازہ رپورٹیں لینا ہوتا تھا۔ یعنی وہ دوغلی پالیسی پر کاربند تھے۔ ابا جی ورکروں کیلۓ ان داتا تھے تو ان کے بیٹے اور پوتے ورکروں پر ظلم کرنے والے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ اگر کوئی ملازم چوری یا فراڈ کرتا ہوا پکڑا گیا تو انہوں نے اسے پولیس کے حوالے کرنے اور مقدمہ درج کرانے کی بجاۓ فیکٹری کے اندر ہی سزا دی ۔ سزا دینے کے بعد جب ملازم کا منہ مار کی وجہ سے سوج کر خراب ہوجاتا تھا تو وہ اسےپولیس کے حوالے کرنے سے پہلے عبرت کیلۓ ایک یا دودن گیٹ پر بٹھا دیا کرتے تھے۔ اگر فیکٹری میں کوئی حادثہ ہوجاتا تو وہ متاثرین کو نہ ہونے کے برابر معاوضہ دیا کرتے تھے۔ اگر کوئی اہم ملازم یا افسر اچھی نوکری ڈھونڈ کر استعفیٰ دے دیتا تو وہ اس کے بقایا جات ادا کرنے سے انکار کردیا کرتے تھے۔

نواز شریف فیملی نے یہی اطوار حکومت کے اندر بھی اپناۓ رکھے۔ حالانکہ انہیں پہلے ایک بار جھٹکا لگ چکا تھا مگر دوبارہ حکومت ملنے کے بعد بھی انہوں نے سبق نہ سیکھا اور اپنی من مانیوں میں اس انتہا تک پہنچ گۓ جہاں سے واپسی صرف جلاوطنی کی شکل میں ہی ہوسکتی تھی۔

پرویز صاحب نے اپنی کتاب میں کئی جگہوں پر اپنے آپ کو کمانڈو اور بہادر ثابت کرنے کیلۓ ایسی ایسی ڈینگیں ماری ہیں جن کا کوئی سر پیر نظرنہیں آتا۔ بارہ اکتوبر کو جب ان کا جہاز فضا ميں تھا تو انہوں نے پائلٹ سے پوچھا کہ وہ اس وقت طيارہ کہاں کہاں اتار سکتے ہیں۔ پائلٹ نے ان کے سوال کے جواب میں بتایا کہ وہ یا تو بھارت جہاز کو لے کر جاسکتا ہے یا اومان۔ اس نے پرویز صاحب کو چیلنج نہیں کیا کہ وہ ضرور جہاز کو بھارت لے کر جاۓ گا مگر پرویز صاحب کا جواب تھا کہ تم جہاز کو بھارت میری لاش پر سے گزر کر ہی لے جاؤ گے۔ اب یہاں اس طرح کی ڈینگ مارنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن کیا کیا جاۓ کتاب بیچنے کیلۓ ایسے مصالحے لگانا ضروری ہوتا ہے۔

پرویز صاحب نے بارہ اکتوبر کے واقعے کا پس منظر بھی بیان کیا ہے۔ انہوں نے کتاب میں تین باتوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک بات یہ کہ نواز شریف نے انہیں دو جنرلوں کو ریٹائر کرنے کیلۓ کہا اور پرویز صاحب نے انکار کردیا اور کہا ہ وہ جنرلوں کو صرف قواعد و ضوابط کی رو سے ہی ریٹائر کرسکتے ہیں۔ حالانکہ اس سے پہلے نواز شریف پرویز صاحب کی سفارش پر اپنے چہیتے وزیر کے عزیز لیفٹینیٹ جنرل طارق پریز عرف ٹی پی کو دل پر پتھر رکھ کر ریٹائر کرچکے تھے۔

پھر دوسری دفعہ ایک اخباری ایڈیٹر نجم سيٹھي کو گرفتار کیا اور اس کا کورٹ مارشل کرنے کو کہا اور پرویز صاحب نے پھر انکار کردیا اور اسے رہا کردیا۔

تیسری بات کارگل پر اختلاف کی ہے۔

اس کے علاوہ ان دونوں میں کونسی خاص چپقلش چل رہی تھی یہ وہ جانتے ہیں یا ان کے حواری۔

آخرکار طیارہ بحافظت اتار لیا گیا اور نواز شریف کی اپنی یا ان کے ابا جی کی غلطیوں کی وجہ سے چھٹی ہوگئ۔ نواز شریف فیملی نے جب ایک دو جنرل ریٹائر کۓ، فاروق لغاری کو گھر بھیجا اور پھر چیف جسٹس سجاد شاہ کی چھٹی کرائی تو انہوں نے سمجھا کہ اب سارے کانٹے راستے سے ہٹ چکے ہیں اسلۓ انہوں نے من مانیوں کی انتہا کردی جس کا نتیجہ وہی نکلنا تھا جو نکلا یعنی نواز شریف فیملی کو اپنی جان چھڑانے کیلۓ اپنے ساتھیوں کو تنہا چھوڑ کر جلاوطن ہونا پڑا۔

اگر نواز شریف فیملی میں ذرا سی بھی سوجھ بوجھ ہوتی تو وہ عوامی مالِ غنیمت تنہا کی بجاۓ مل کر لوٹتی اور اس میں آرمی اور بیوروکریسی کو اس کا حصہ دیتی رہتی۔

ہو سکتا ہے شاہ سے زیادہ شاہ کے حواریوں نے شاہوں کا بیٹرہ غرق کیا ہو۔ وہی حواری بعد میں غداری کرکے پرویز صاحب کی حکومت میں چلے گۓ۔

اس سے اگلےباب میں پرویز صاحب آرمی کے حکومت پر قبضہ کرنے کا حال بیان کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں جب تک آرمی کو باہر سے آشیر باد نہیں ملے گی وہ حکومت پر قبضے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اس لۓ اس سارے ڈرامے کے پیچھے اسی طاقت کا ہاتھ ہوسکتا ہے جس نے بعد میں پرویز صاحب سے اتنے فوائداٹھاۓ جو وہ قومی حکومت سے نہیں اٹھا سکتی تھی۔