اختتامیہ

اُفکار

کبھی کبھی جب میں اپنی گزری ہوئی زندگی کے نشیب و فراز کے بارے میں سوچتا ہوں، تو ان سب عنایتوں اور مہربانیوں کیلۓ، جو اس نے مجھے عطا کیں، میں دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ ایک متوسط خاندان میں پروان چڑھنے والے، لیکن ایک امتیازی معاشرے میں رہنے والے کسی فرد کو، عام طور پر۔ اعلیٰ ترین مقام پر پہنچنے کی امید نہیں کرنی چاہۓ۔

[واقعی یہ پرویز صاحب پر قسمت کی مہربانی تھی کہ بقول ان کے اس مقام کے قابل نہ ہونے کے باوجود انہیں اعلیٰ عہدہ نصیب ہوا۔ ہمارے خیال میں تو اگر آدمی بیشک نااہل ہو مگر چاپلوس، بکنے والا اور ڈرپوک ہو تو اسے کامیابی نصیب ہوہی جاتی ہے]۔

میں نے دہلی سے کراچی تک کے پرخطر سفر کے آغاز سے اب تک ایک متلاطم زندگی گزاری ہے۔ نہ تومجھ میں وہ ذہانت نظر آتی تھی اور تھی بھی نہیں، جس سے میرے شاندار مستقبل کی نشاندہی ہوتی۔ فوج میں، میں ایک سنجیدہ پیشہ ور افسر کی بجاۓ ایک بے قاعدہ، خوش و خرم اور اعتراضات کرنے والا افسر سمجھا جاتا تھا۔ میں نے زندگی کو کبھی بہت سنجیدگی سے نہیں لیا۔ میں اپنی ملازمت کے شروع میں، ہر تھوڑے عرصے کے بعد نظم و ضبط کے معاملات میں ملوث ہوجاتا تھا۔ اگر میرا ریکارڈ، جس میں میرے نطم و ضبط کے منافی بہت کچھ لکھا گیا ہے، دیکھا جاۓ تو یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ میرا مستقبل روشن ہوگا۔

[اسے کہتے ہیں صحیح وقت پر صحيح جگہ پر ہونا۔ یہ پرویز صاحب کی خوش قسمتی یا غیبی طاقت کا کمال تھا کہ حالات اسطرح کے پیدا ہوۓ اور پرویز صاحب سے جو کام لیا جانا تھا وہ ان سے لیا جارہا ہے۔ پرویز صاحب خود مانتے ہیں کہ وہ لائق نہیں تھے اور پھر ان کا کیرئیر بھی اکھڑپن کی وجہ سے کوئی شاندار نہیں رہا مگر قسمت کی دیوی ایسے حالات میں انہی لوگوں پر مہربان ہوتی ہے جو اپنی سمجھھ بوچھھ استعمال کرنے کی بجاۓ دوسروں کے کہنے میں آکر ان کے ایجینڈے کی تکمیل میں اسلۓ لگ جاتے ہیں کہ وہ خدا کی بجاۓ انہیں ہی اپنا آقا اور والی سمجھنے لگتے ہیں]۔

اللہ تعاللیٰ ہمیشہ مجھ پر مہربان رہا ہے۔ اس نے مجھے نہ صرف دو جنگوں میں، جن میں میں نے حصہ لیا بلکہ قاتلانہ حملوں، ہوائی حادثوں اور سیاسی وجوہات کے باعث میرے ہوائی جہاز کو اغوا کے واقعات میں میری حفاظت کی ہے۔ آخر کیوں بریگیڈئر بننے کے بعد میری ترقی میں ہمیشہ رکاوٹیں آئیں۔ کچھ سیاسی وجوہات کی بنا پر اور کچھ اس وجہ سے کہ میرا مقابلہ ممتاز اور مراعات یافتہ طبقے کے افسران سے تھا، لیکن میں ترقتی کرتا رہا۔ یہ اس وجہ سے تھے کہ فوج میں ترقی کا طریقۂ کار منصفانہ ہے۔ زمانۂ جنگ میں میری کارکردگی، کمانڈر کی حیثیت سے میرا کردار، اپنے سپاہیوں کے ساتھ میرا برتاؤ اور سب سے زیادہ اپنے اعلیٰ افسروں، ساتھیوں اور ماتحتوں کے ساتھ میرے تعلقات ہی میری قوت کا راز تھے۔ جیسے جیسے میں آگے بڑھتا رہا، میری ذہنی اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں میں اس حد تک اضافہ ہوتا رہا کہ میں جنگی تدابیر اور فوجی حکمتِ عملی کی اچھی سوجھ بوجھ رکھنے والا افسر سجمھا جانے لگا۔

[پرویز صاحب نے مراعات یافتہ فوجی افسروں کا ذکر کیا ہے مگر ان کے نام نہیں لۓ۔ لیکن یہ ثابت ضرور کردیا ہے کہ فوج میں جب ترقی ہوتی ہے تو امارت اور سفارش اپنا کام ضرور دکھاتی ہے]۔

میری جو بھی خوبیاں یا خامیاں ہوں، جب میری ترقی آرمی چیف کے عہدے پر ہوئی تو مقدر پر میرا یقین اور پختہ ہوگیا۔ لیفٹیننٹ جنرل کی حیثیت سے جب میں فوج کی سب سے ممتازکور میں تھا، تو میں نے باعزت طریقے سے ریٹائر ہونے کیلۓ اپنےآپ کو تیار کرلیا تھا، لیکن وزیرِ اعظم نواز شریف کے صدر سے فوجی سربراہوں کے تقرر کا اختیار اپنے ہاتھھ میں لینے کے فیصلے نے صورتِ حال بدل دی۔

مجھے یقین ہے کہ انسان کی زندگی اور پیشے میں کامیابی کا اصل دارومدار اس کی شخصیت کی عمومی نشوونما پر ہے نہ کہ صرف ذہنی صلاحیتوں پر۔ ہر شخص کو ذہنی، اخلاقی، جسمانی اور معاشرتی نشوونما میں مناسب توازن کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان کی ذہانت، اس کی جسمانی نشوونما کی تکمیل کے بعد تک فروغ پاتی رہتی ہے۔ ہر فرد میں ایک قدرتی اور پیدائشی ذہانت ہوتی ہے، لیکن اس میں ترقی کیلۓ ذاتی کاوش ضروری ہے۔

انسان کی اخلاقی نشوونما اس کی شخصیت کا مرکز ہوتی ہے۔ ایمانداری، سچائی، طمانیت اور انکساری اس کے کردار کی انتہائی اہم خصوصیات ہیں۔

[اب پرویز صاحب جن جن انسانی خوبیوں کا ذکر کررہے ہیں وہ کم از کم ان میں تو نہیں لیکن بہرحال ہیں ابھی باتیں]۔

اول، میں نے خود دیکھا ہے کہ مشکل حالات میں، اگر نقصان پہنچنے کا بھی احتمال ہو تب بھی ایمانداری ہمیشہ دوسرے آدمی کو نرم کردیتی ہے۔

[پرویز صاحب نے بینظیر، نواز شریف، جاوید ہاشمی سمیت اپنے دشمنوں کیلۓ نرمی تو دکھائی نہیں]۔

دوم، سچائی اچھے کردار کی نشانی ہے۔

سوم، جو کچھ بھی میں نے حاصل کیا ہے یا میرے پاس ہے، اس نے مجھے مطمٓن اور ہرقسم کے لالچ اور بسیار طلبی سے دور رکھا ہے۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے اتنی ترقی کی، لیکن اگر ایسا نہ ہوتا، تب بھی میں مطمٓن رہتا۔ مجھ سے کم خوش قسمت لوگ کبھی میری نظروں سے اوجھل نہیں ہوتے اور میں اللہ تعالیٰ کی عنایتوں کا انتہائی شکرگزار ہوں۔ ایک انسان کو درخت کی طرح ہونا چاہۓ، جو جتنا اونچا ہوتا جاۓ، اتنا لچکدار ہوتا جاتا ہے۔

[کہتےہیں کہ اگر آپ نے کرپشن میں ہاتھ نہیں رنگے مگر آپ نے اپنے ماتحتوں کو کرپشن سے نہیں روکا بلکہ ان کی دلجوئی کی یا کرپشن کو بطورِ ہتھیار استعمال کیا تب بھی آپ اتنے ہی قصوروار ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ ابھی تک پرویز صاحب کی کرپشن کا سکینڈل منظرِ عام پر نہیں آیا مگر نج کاری کی طرح کی کئی ڈیلوں میں کرپشن کو وہ نہیں روک سکے۔ انہوں نے قرض نادہندگان کو اپنی حکومت میں شامل کیا اوربعد میں ان کے قرضے معاف کردیۓ۔ ایک جگہ پر وہ مانتے ہیں کہ یہ کام غلط تھا مگر پھر کہتے ہیں کہ کبھی کبھی اچھے کاموں کیلۓ اسطرح کی چالیں چلنا پڑتی ہیں۔ یہ تو برے کام کے جائز ہونے کیلۓ کوئی دلیل نہ ہوئی]۔

چہارم، اپنے عروج کے باوجود انکساری آپ کا قد بڑھاتی ہے۔ آپ کو کبھی اپنی تعریف آپ نہیں کرنی چاہۓ، بلکہ ہونا یہ چاہۓ کہ دوسرے آپ کی خصوصیات خود دیکھيں۔ مجھ میں یہ خصوصیات میرے والدین نے ذاتی مثال اور گھریلو تعلیم کے ذریعے پیدا کی تھیں۔

[یہ بھی سچ نہیں ہے۔ پرویز صاحب جب بھی بولتے ہیں اپنے کارنامے اور دوسروں کی برائیاں گنواتے نہیں تھکتے۔ پرویز صاحب کی حکومت ان چند حکومتوں میں سے ایک ہے جن پر سب سے زیادہ تنقید ہو رہی ہے]۔

قیادت کرنے کی صفت بھی ایک حد تک پیدائشی ہوتی ہے، لیکن کوشش اور محنت سے بھی اسے حاصل کیا جاسکتا ہے، جیسا میرے دوست کولن پاول نے خوبصورت الفاظ میں کہا کہ “یہ ایک ہنر ہے نہ کہ ایک سائنس اور انتظامی سائنس سے جو نتائج حاصل کۓ جاسکتے، یہ اس کے بہتر نتائج حصال کرنے کا ہنر ہے۔” یہ دوسروں کیساتھ ہم کاری اور گفت و شنید کا ہنر ہے، کسی بھی صورتِ حال میں جوابی کاروائی کرنے کا ہنر ہے اور یہ ہنگامی حالات کا مقابلہ کرنے کا ہنر ہے۔ عوام، ایک لیڈر میں اچھے کردار کے علاوہ اس میں حتمی فیصلہ کرنے ک صلاحیت، بے باقی اور مشکل حالات میں نہ گھبرانے کی خوبیاں پسند کرتے ہیں۔ ایک لیڈر کو اپنے ماحول اور اس کی پیچیدگیوں کو سمجھنا چاہۓ۔ ہمیشہ اس کا ہاتھ زمانے کی نبض پر ہونا چاہۓ۔

[کولن پاول کا قول تو انگریزی کتاب میں نقل کردیا۔ اچھا ہوتا اگر اردو والی کتاب میں ان کی جگہ پر اپنے قائد اعظم کا قول نقل کردیتے]۔

کسی شخص کا کسی خاص عہدے کے لۓ یا ٹيم کا انتخاب کرنا بھی غالباً لیڈر کی ایک انتہائی اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس بہت زیادہ محتاط اور چوکنا رہنا ہوتا ہے۔ ہم کاروں میں وفاداری، ایمانداری اور راست بازی لازمی ہیں۔ لیکن یہ ہی سب کچھ نہیں ہے۔ منتخب ہونے والے شخص میں پیشہ وارانہ صلاحیتیں اور اپنے لیڈر کی خواہشات اور خیالات کے مطابق کام پورا کرنے کا عزم بھی ہونا چاہۓ۔ وفاداری، بالواسطہ یا بلاواسطہ ہوسکتی ہے۔ آپ کے ماتحت کی آپ کے ساتھ وفاداری کو میں بالواسطہ وفاداری کہتا ہوں، لیکن اس سے زیادہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کے اغراض ومقاصد پر آپ ہی کی طرح یقین رکھتا ہو، تو آپ کے ساتھ اس کی وابستگی زیادہ مستحکم ہوگی۔

[یہ بھی سچ نہیں ہے کہ خاص عہدوں کیلۓ پرویز صاحب قابل آدمی منتخب کۓ بلکہ کچھ تو ان کے آقاؤں نے نامزد کۓ اور کچھ کو مجبوریوں کے تحت رکھنا پڑا]۔

اپنے ماحول کا تجزیہ کرنے اور اپنی ٹيم کا انتخاب کرنے کے بعد ایک لیڈر کو اپنے اہداف اور اپنی ترجیحات کا یقین کرنے اور انہیں نافذ کرنے کی حکمتِ عملی مرتب کرنی چاہۓ۔ یہ طریقۂ کار ایسا ہونا چاہۓ، جو پوری ٹیم کے لۓ قابلِ قبول ہو۔ اس کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اسے جمہوری طریقے سے بنایا جاۓ، بجاۓ اس کے کہ سربراہ خود حکتمتِ عملی تیار کرے اور پھر اسے ٹیم پر ٹھونسے۔ اس پر ایک مباحثہ ہونا چاہۓ، جس میں ہر شخص کو اس کی موافقت اور مخالفت ميں بولنے کی مکمل آزادی ہونی چاہۓ، خصوصاً مخالفت ميں۔ اس کے بعد سربراہ کا کام آخری فیصلہ کرنا ہے۔ اس کو مستعدی سے اور جتنا جلد ہوسکتا ہو، اتنا ہی جلد ایسا کرن چاہۓ۔ رچرڈ نکسن نے اپنی کتاب لیڈرز میں کہا ہے۔ “ایک لیڈر کو کبھی بھی تجزیۓ کے ذریعے فالج کا شکار نہیں ہونا چاہۓ۔” مجھے اس سے اتفاق ہے۔ نپولین نے کہا ہے کہ “دوتہائی فیصلہ سازی، معلومات، تجزیے، خیالات، حقیقت اور شماریات پر منحصر ہوتی ہے اور ایک تہائی خود اپنی سوچ پر مبنی تاریکی میں کودنا ہے۔ اگر کوئی اس ایک تہائی میں اضافہ کرتا ہے تو وہ اضطراری فیصلہ ہوتا ہے۔ جو دوتہائی میں اضافہ کرتا ہے، اس میں قوتِ فیصلہ کی کمی ہے اور وہ کوئی لیڈر نہیں ہے۔” مجھے اس سے بھی اتفاق ہے۔ یہ کہنا غیرضروری ہے کہ لیڈر کے اکثر فیصلے صحيح ہونے چاہئیں۔

[یہ بات تو ٹھیک ہے کہ جمہوری طریقے سے ہر اقدام پر مشورہ کرنا چاہۓ مگر اب تک  کی پرویز صاحب کی کارکردگی اس کے الٹ ہے۔ انہوں نے سارے مشورے خود کۓ اور بعد میں اپنی کو آگاہ کیا۔ ان کی حکومت نے آرڈینینس زیادہ جاری کۓ اور اسمبلي سے بل کم پاس کرواۓ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا دور جمہوری نہیں ہے اور اوپر جو طریقہ انہوں نے بیان کیا ہے وہ خود اس پر عمل پیرا نہیں ہیں]۔

جب لیڈر حکمتِ عملی بنا لے اور فیصلے کرلے تب قیادت کے دو پہلو اور باقی رہتے ہیں۔

اول، یہ کہ فیصلے آخری ہیں اور پوری ٹیم کو مع ٹيم کے ان افراد کے جو اس کے مخالف تھے، انہیں قبول کرلینا چاہۓ۔ آخری فیصلے کے بعد اختلاف راۓ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ جو کوئی بھی ساتھ نہ چلنا چاہے، اسے ٹيم چھوڑ دینی چاہۓ۔ قائد کو بغیر مروت کے اور بے رحمانہ طریقے سے ایسے ٹیم ممبر کو نکال دینا چاہۓ، جو آخری فیصلہ قبول نہ کرے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ لیڈر کو اپنے منتخب ماتحت کو اس حکمتِ عملی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مکمل اختیار دے دینا اور اس کی پوری قوت کے ساتھ مدد اور پشت پناہی کرنی چاہۓ۔ کسی بھی لیڈر کو روزمرہ کے معمولات میں دخل نہیں دینا چاہۓ۔ لیڈر کو صرف حکمتِ عملی کے نقشے میں ان مقامات کی نشان دہی کرنی چاہۓ، جہاں جہاں وہ حکمتِ عملی پر عمل درآمد دیکھنا چاہتا ہے اور پھر ان پر نظر رکھنی چاہۓ۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں منصوبے بنانے اور ان کی تعمیل و تکمیل میں بہت فرق ہوتا ہے، اس قسم کی نگرانی ضروری ہے۔

کوئی بھی منصوبہ سو فیصد کامیاب یا مکمل نہیں ہوتا۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب آپ بہتر سے بہتر نتائج حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہوں اور آپ کی سمت اگر صحیح ہو تو جزوی کامیابی بھی قبول کرلینی چاہۓ۔ پانی سے بھرا ہوا آدھا گلاس، کچھ نہ ہونے سے بہتر ہے، آپ اس میں اضافہ کرسکتے ہیں۔

کسی بھی قوم کے لیڈر کی مجموعی ذمہ داری بہت وسیع ہوتی ہے۔ اسے اپنی قوم کو ترغیب دینی، اس میں جوش، خود اعتمادی اور کام کرنے کی لگن پیدا کرنی ہوتی ہے۔ لیڈر کے لۓ اپنی ذاتی مثال قائم کرنا، اس کا سب سے بہتر طریقہ ہے تاکہ قوم اسے واضح طریقے سے اپنے فرائض انجام دیتا ہوا دیکھے۔ ایک مضبوط کردار کا آدمی ہی اچھا لیڈر ہوسکتا ہے۔ ایک سچے لیڈر کو اس کے عوام کا پیار حاصل ہوگا۔ وہ اس کے عہدے اور مرتبے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی عزت و احترام کی وجہ سے اس کا ساتھ دیں گے۔

[شرط یہ ہے آدمی اچھا لیڈر ہو تب یہ ساری خوبیاں کام دکھاتی ہیں۔ اگر لیڈر ہی بکاؤ ہو اور قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتا ہو، غیرملکی آقاؤں کے مشں کی تکمیل اس کام ہو تو پھر وہ لیڈر نہیں ہوتا بلکہ ایک کٹھ پتلی ہوتا ہے]۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک لیڈر کو عوامی راۓ کے ساتھ ساتھ چلنا چاہۓ، لیکن ایک ایسا وقت آسکتا ہے اور ایسی صورتِ حال پیدا ہوسکتی ہے، جب لیڈر یہ محسوس کرے کہ عوامی راۓ کا بہاؤ صحيح سمت میں نہیں ہے۔ ایسے وقت میں سچی قائدانہ صلاحیتیں بروۓ کار آتی ہیں کیونکہ لیڈر کے لۓ عوامی دھارے کو تبدیل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ لیڈر میں عوامی راۓ کو سچے قومی مفاد کے لۓ بدلنے کا عزم ہونا چاہۓ۔

مری حکومت کے دوران میں نے ایک بحران کے بعد دوسرے بحران کا مقابلہ کیا ہے۔ میں نے سب سے پہلے ملک کے اہم ترین داخلی بحران یعنی ملک کی کشتی کو غرق ہونے سے بچانے کی کوشش سے ابتدا کی۔ میں نے سات نکاتی لائحہ عمل میں مختلف میدانوں کا انتخاب کرکے انہیں اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ مغرب کی طرف سے جمہوریت کے مطالبے اور ان کی طرف سے عائد کی گئ پابندیوں کے باوجود ملک اطمینان بخش طریقے سے چل رہا تھا۔ میں نے مغرب سے اپنا مقدمہ، ان کی اس مصنوعی جمہوریت جس کیلۓ وہ شور مچا رہے تھے، کے برعکس اصلی جمہوریت کی روح جسے میں نافذ کرنا چاہتا تھا، منطق اور دلائل کے زور پر لڑا۔ میں ملکی اور  غیرملکی محاذوں پر تقریباً دوسال تک اس جدوجہد میں مصروف رہا ااور اسی دوران ملک کو مشکلات سے نکال کر کامیابی سے ترقی کی راہ پر ڈال دیا۔

[پرویز صاحب نے جن سات نکات کی بات کی ہے وہ ان کو مکمل نہیں کرسکے۔ یورپ کیساتھ انہوں نے جہموریت کا مقدمہ بھی اس طرح لڑا کہ بقول ان کے اگر یورپ جمہوریت چاہتا ہے تو وہ جمہوریت کا لیبل بھی اپنی حکومت پر لگا دیں گے اور انہوں نے واقعی یہ کام کردکھایا۔ یہ تو ان کی خوشقسمتی تھی کہ 911 نے انہیں بچا لیا وگرنہ یورپ ان کے لیبل والی جہموریت سے کبھی مطمٔن نہ ہوتا]۔

پھر 911 اور اس کے نتایج وقوع پذیر ہوۓ۔ دنیا ہی بدل گئ۔ عالمی طاقتوں کی خصوصی توجہ پانچ چیزوں پر مرکوز ہوگئ۔ انسدادِ دہشت گردی، ایٹمی پھیلاؤ، جمہوریت، حقوقِ انسانی اور منشیات۔ پاکستان ان سب کے درمیان ہے اور غیرملکی دباؤ، اندرونِ ملک پاۓ جانے والے احساسات کے برعکس ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہماری آبادی کی اکثریت دہشت گردی، منشیات یا ایٹمی پھیلاؤ کی حامی ہے۔ چھوٹے چھوٹے گروہ دہشت گردی اور منشیات کے حامی ہیں اوران سے بھی کم لالچی افراد ایٹمی پھیلاؤ کے، لیکن پاکستانیوں کی اکثریت مغرب کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری معاونت کے خلاف ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر قدیرخان کو سزا دینے کی بھی مخالفت کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان تمام مسائل پر کۓ گۓ میرے فیصلے ہمارے مفاد میں اور اخلاقی طور پر صحیح ہیں، لیکن کئ مرتبہ ہمارے مغربی اتحادیوں کا برتاؤ ہمارے تعاون کو کمزور اور غیر مستحکم کرتا ہے۔

[پرویز صاحب کو نائن الیون کا شکر گزار ہونا چاہۓ جس کی وجہ سے دنیا نے جمہوریت کے مطالبے کو چھوڑ کر ان کی ڈکٹیٹرشپ کو وقتی طور پر مجبوراً قبول کرلیا]۔

یہ خصوصاً مغرب کی انسدادِ دہشت گردی کی حکمتِ عملیوں کے لۓ صحيح ہے۔ مغرب آزادی کی ہر مسلح جدوجہد کو بغیر استثنا ردّ کرتا ہے۔ یورپ اور امریکہ ہر قسم کی مسلح جدوجہد کو دہشت گردی گردانتے ہیں، خصوصاً وہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جدوجہدِ آزادی کو دہشت گردی کہتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ اس عمومی برتاؤ کو ردّ کیا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ہر طرح کی دہشت گردی کو اس کی نوعیت اور طرزِ عمل کے مطابق دیکھا جاۓ۔ یہ انتہائی اہم بیان ہے کیونکہ جب حکومتیں آزادی کی جدوجہد دبانے کے لۓ معصوم شہریوں کو قتل کرتی ہیں، تب ہم اسےریاستی دہشتگردی کہتے ہیں۔ میرے خیال میں حکومت یا کسی گروہ کی طرف سے معصوم شہریوں کو ہلاک کرنا دہشتگردی ہے۔ کسی بھی حکومت کا اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی منظور کی ہوئی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوۓ معصوم شہریوں پر مظالم ڈھانا اور انہیں ہلاک کرنا سراسر ریاستی دہشتگردی ہے۔ میں کسی فوجی ہدف کے خلاف کاروائی کے نتیجے میں شہریوں کی اتفاقاً ہلاکت اور دانستہ طور پر شہریوں کو نشانہ بنانے میں فرق قائم کرنا چاہتا ہوں۔

[شکر ہے پرویز صاحب نے آخرکار کشمیر کی جدوجہد کا ذکر تو کیا اور اسے دہشت گردی ماننے سے انکار کیا]۔

پاکستان کے لۓ اس موٓقف پر قائم رہنا اس وقت مشکل ہوجاتا ہے، جب مقبوضہ کشمیر کی جنگِ آزادی کے مجاہدین دنیا کےدوسرے حصوں میں دہشتگردی کی کاروائیوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں ہے کہ ایک شخص کے لۓ دہشتگرد دوسرے شخص کیلۓ مجاہدِ آزادی ہے ہوسکتا ہے۔ اگر وہ اس مقصد سے ہٹ کر کچھھ اور کرے تو اسے دہشتگرد کہا جاۓ گا۔ بھارت کے ساتھ میری مفاہمت کی کوششوں اور اس کے ساتھ ہمارے تعلقات میں نمایاں بہتری کے نتیجے میں، پاکستان بڑی حد تک اس الزام سے بری ہوگیا ہے، جسے دنیا دہشتگردی کہتی ہے اور ہم اسے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جدوجہدِ آزادی کہتے ہیں۔

[یہ بات سچ نہیں ہے کہ کشمیری مجاہدین دنیا کے دوسرے حصوں میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرتے ہیں۔ ہاں انہوں نے اپنے ملک بھارت کے اندر اپنے مشن کی خاطر کچھ کاروائیاں کی ہیں جنہیں دہشت گردی کہا جاسکتا ہے مگر وہ ان کے اپنے ملک میں تھیں]۔

جمہوریت کا مسٔلہ بھی سرد جنگ کے بعد، مغرب کا ایک ناقابلِ فراموش تصور ہے جس کے بعث بدقسمتی سے جمہوریت کے معاملے میں ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں، لیکن میں تمام ملکوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے خلاف ہوں۔ میں نے تمام دنیا میں پاکستان کا موٓقف پیش کیا ہے اور ایسے ملک دیکھےہیں، جہاں جمہوریت ناکام ہورہی تھی کیونکہ وہ ان ممالک کی ضروریات پوری نہیں کر پارہی ہے۔ ہر ملک کو جمہوریت کے بنیادی اصولوں پر عمل کرنا چاہۓ۔ آزاد ذرائع ابلاغ کے ذریعے تحریر و تقریر کی آزادی، خواتین اور اقلیتوں سمیت عوام کو بااختیار بنانا، عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کے لۓ ووٹ کا اختیار اور سب سے زیادہ عوام کی زندگی میں مسلسل اور واضح بہترئ پیدا کرنا۔ اس کے علاوہ اس سسٹم کے خدوخال اور سیاسی اور انتظامی اداروں کو، اس ملک کے لوگوں کو اپنے مزاج کے مطابق تشکیل کرنے کے لۓ چھوڑ دینا چاہۓ۔ جس قدر جلد مغرب اس حقیقت کو قبول کرلے اور دوسرے ملکوں پر ایسے خیالات، جو ان کے لۓ اجنبی ہوں، ٹھونسنا بند کردے، یہ اتنا ہی عالمی ہم آہنگی کے لۓ بہتر ہوگا۔ میں اب بھی مغرب کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہا ہوں کہ پاکستان ماضی کے مقابلے میں آج کہیں زیادہ جمہوری ہے اور اتفاق یہ ہے کہ اس کام کو میں نے باوردی ہونے کے باوجود انجام دیا۔

[اوپر جو نقطہ افرینی پرویز صاحب نے جو کی ہے وہ ایک ڈکٹیٹر کا خیال تو ہوسکتا ہے ایک جمہوریت پسند شخص کا نہیں۔ جمہوریت  صرف ایک ہی طرح کی ہوتی ہے اور اس کے مختلف ماڈل نہیں ہیں اور نہ ہی خاص حالات کیلۓ کسی خاص جمہوریت کی ضرورت ہوتی ہے]۔

اکتوبر 2002 کے بعد جب ہم نے قومی اور صوبائی الیکشن کے ذریعے حکومت منتخب نمایندوں کے حوالے کردی، تب سے کچھ شکایتیں بھی آئی ہیں۔ مجھ پر بھی اعتراضات ہوۓ کہ میں نے وزرا اور دوسرے حکومتی عہدے داروں کے انتخاب میں کسی معیار کا خیال نہیں رکھا۔ کچھ لوگ مجھ پر یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ میں نے ایک بدنام سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد کرکے حکومت سازی کی۔ ان الزامات میں ایک حد تک صداقت ہے لیکن میں اس قسم کی غلطیوں کو متبادل پر فوقیت دیتا ہوں۔

[پرویز صاحب کا فوجی جمہوری نظام صرف ان کی شخصیت کی وجہ سےچل رہا ہے۔ سارے فیصلے ان کے ہوتے ہیں اور عوامی خواہشات کا بلکل خیال نہیں رکھا جاتا۔ ڈکٹیٹرشپ کی یہ بہت بڑی مثال ہے کہ پہلے وزیرِ اعظم منتخب کیا اور بعد میں اس کو اسمبلی کا الیکشن لڑوا کر اس قابل بنایا کہ وہ وزیرِ اعظم کے عہدے کا حلف اٹھا سکے۔ پرویز صاحب کی اس خواہش کے آگے سارے سیاستدان بھیگی بلی کی طرح بیٹھے رہے اور کچھ نہ کرسکے]۔ 

ناخواندہ، جاگیردارانہ، قبائلی اور علاقائی معاشروں میں ایک بڑی خامی ہوتی ہے۔ لوگ اپنی اہلیت کی بنا پر منتخب نہیں کۓ جاتے، بلکہ سیاسی عمل میں ان کی ترقی خاندانی تعلقات اور دولت کی بنا پر ہوتی ہے۔ 1999 سے 2002 تک میں افراد کو صرف ان کی اہلیت کی بنا پر چن رہا تھا، لیکن اب عوام ان کا انتخاب کررہے ہیں۔ اگر آپ جمہوریت چاہتے ہیں تو آپ کو اتنا احساسِ ذمہ داری بھی ہونا چاہۓ کہ آپ مناسب لوگوں کا انتخاب کریں۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو بعد میں منتخب نمائندوں اور وزرا کے خراب معیار کے بارے میں شور نہ مچائیں۔

پرویز صاحب کو اس خرابی سے آگاہی تو ہے مگر وہ اس کو ختم نہیں کرسکے۔ اگر وہ چاہتے تو تبدیلی لاسکتے تھے مگرشاید وہ جانتے تھے کہ ڈکٹیٹر کی ڈکٹیٹرشپ زیادہ دیر تنہا نہیں چل سکتی اور انہیں اسے قائم رکھنے کیلۓ انہی وڈیروں، جاگیرداروں اور صنعتکاروں کو آخر کار ساتھ ملانا ہی پڑا]۔  

پاکستان پر الزام ہے کہ اس کا حقوقِ انسانی کا ریکارڈ خراب ہے۔ مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ ہمارا ریکارڈ قابلِ فخر نہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ میں یہ بھی کہتا ہوں کہ یہ دوسرے بہت سے ترقتی یافتہ ممالک کے ریکارڈ سے بدتر نہیں ہے۔ ہم نے اپنا ریکارڈ درست کرنے کے لۓ بڑے اقدامات کۓ ہیں۔ ہم نے ذرائع ابلاغ سے پابندیاں ہٹا کر تحریروتقریر کی آزادی دی، ہم نے خواتین کو سیاسی معاملات میں بااختیار بنایا، ہم اقلیتوں کو عام انتخابی سرگرمیوں میں شامل کرکے قومی سیاسی دھارے میں لے آۓ ہیں۔ ہم نے کاروکاری کے خاتمے کیلۓ قرارداد منظور کی، ہم بچوں کی مزودری کے مسٓلے پر لائحۂ عمل بنارہے ہیں، ہم نے مزہبی بے حرمتی کے قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لۓ انتظامی اقدامات کۓ ہیں۔ حدود قوانین کے پیچیدہ مسٓلے کا ایک پارلیمنٹری کمیٹی جائزہ لے رہی ہے۔ یہ کوئی معمولی کارکردگی نہیں ہے۔

[پرویز صاحب کی حکومت حقوقِ انسانی کیلۓ بھی کوئی خاص اقدامات نہیں کرسکی۔ بلکہ ان کے دور میں ایجنسیاں زیادہ متحرک ہوچکی ہیں اور آۓ دن لوگوں کے غائب ہونے کی خبریں ملتی رہتی ہیں]۔

منشیات کی تجارت ایک بین الاقوامی لعنت ہے۔ پاکستان پر افیون کاشت کرنے اور اسے غیرملکوں میں بھیجنے کے الزامات لگاۓ جاتے ہیں۔ ہم نے افیون کی کاشت پر پابندی لگا کر اسے ختم کردیا ہے۔ ہم نے انسدادِ منشیات کے محکمے کو مضبوط بنا کر منشیات فروشوں کیخلاف موٓثر بنا دیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہم اپنی کارکردگی، عالمی برادری کے لۓاطمینان بخش بنارہے ہیں۔

[پتہ نہیں منشیات کی پیداوار بند ہوئی کہ نہیں مگر افغانستان سے منشیات کی سمگلنگ ابھی تک جاری ہے اور پاکستان منشیات کو افغانستان سے سمندری راستے سے باہر بھجنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے]۔

حکومتی باگ ڈور سنبھالنے کے پہلے سال یعنی 2000 میں، میں روزانہ پندرہ گھنٹے سے زیادہ کام کرتا تھا۔ میں صبح نو بجے گھر سے نکلتا، تقریباً چھھ بجے گھر واپس آتا، نہانے دھونے کے بعد گھر پر، شام سات بجے سے پھر کسی نہ کسی ورکنگ گروپ کے ساتھ کام شروع کردیتا، جو دس بجے تک جاری رہتا [کبھی کھانے کے ساتھ، کبھی کھانے کے بغیر]۔ اس کے بعد رات گیارہ بجے دوسرے ورکنگ گروپ کے ساتھ کام شروع کرتا، جو رات دو بجے ختم ہوتا۔ میرا یہ معمول بغیر کسی تبدیلی کے ایک سال تک رہا۔ ان نشستوں میں اپنی ان تھک محنت کے ساتھ، ہم نے حکومتی امور سے متعلق ایسی بہت سی حکمتِ عملیاں تشکیل دیں، جو سمت کا تعین کۓ، روزمرہ اصولوں پر اور کل کی فکر کۓ بغیر چلائی جارہی تھیں۔ انہی تھکادینے والی نشستوں میں، میں نے وہ سب کچھ سیکھا، جس سے میں نابلد تھا، خصوصاً معاشیات کے بارے میں۔

[پرویز صاحب نے اتنا وقت لگا کر جو کچھ اپنے آقاؤں سے سیکھا وہ قوم کے کام نہیں آیا۔ پاکستانی کل بھی غریب تھے اور آج بھی غریب ہیں بلکہ زیادہ غریب ہورہے ہیں۔ چوری ڈاکے عام ہوچکے ہیں اور پرویز صاحب کے دور میں ریکارڈ خودکشیاں ہوئی ہیں۔ البتہ پرویز صاحب نے اپنے آقاؤں کے مفادات کا سوفیصد خیال رکھا ہے]۔

اب بھی کرنے کو بہت کچھ باقی ہے، لیکن میرے خیال میں پاکستان کی صورتِ حال کو پر امید انداز میں دیکھنا چاہۓ۔ جو ہر آدھے بھرے ہوۓ پانی کے گلاس کو آدھا خالی ہی دیکھتے ہیں، وہ مایوسانہ اور منفی رجحان رکھتے اور شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کا متبادل یہ ہے کہ گلاس کے بھرے ہوۓ حصے پر نگاہ رکھی جاۓ اور خالی حصہ بھرنے کی کوشش کی جاۓ۔ مجھے ہر وقت اس بات کا احساس رہتا ہے کہ پاکستان کو ترقی اور خوش حالی کی راہ پر چلاۓ رکھنے کے لۓ مزید کیا کیا جاۓ۔

[اگر پرویز صاحب پاکستان کو ترقی کی راہ پر چلانا چاہتے ہیں تو بھارت کی تقلید کرتے ہوۓ اسے فوج کی دستبرد سے آزاد کردیں اور اقتدار عوامی نمائندوں کو دے دیں]۔

پرويز صاحب نے مندرجہ ذيل تجاويز پاکستان کي ترقي اور خوش حالي کيلۓ دي ہيں۔

1. ہمیں القاعدہ کو شکست دے کر اور علاقے میں طالبانائزیشن کو روک کر صوبہ سرحد کو استحکام بخشنا ہے۔

2. ہميں انتہاپسندی اور عصبیت کو دبا کر معاشرے کو اس سے پاک کرنا ہے۔

3. ہمیں بہتر آبپاشي اور زراعت، صنعتی ترقی کیلۓ بالواسطہ غیرملکی سرمایہ کاری میں اضافہ اور درآمدات[یہاں برآمدات ہونا چاہۓ۔ ترجمہ کرنے والے نے امپورٹ اور ایکسپورٹ کا ترجمہ کرتے ہوۓ درآمدات اور برآمدات کو آپس میں تبدیل کردیا ہے]  میں اضافہ کرکے اپنی معاشی ترقی کو جاری رکھنا ہے۔ ہمیں پاکستان کو تجارت اور توانائی کے علاقائی مرکز میں تبدیل کرنا ہے۔ یہ سب ہمیں اپنے مالی خسارے پر قابو رکھتے ہوۓ کرنا ہے۔

4. ہمیں اپنی معاشی ترقی سے حاصل ہونے والے فوائد کو عوام تک پہنچانا ہے تاکہ غربت کے خاتمے، ملازمتوں میں اضافے اور قیمتوں میں کمی کے ہدف حاصل ہوسکیں۔ ہمیں ہر شہری کو بجلی، پینے کا صاف پانی اور قدرتی گیس فراہم کرکے اس کا معیارِ زندگی بلند کرنا ہے۔

5. ہر سطح پر تعلیم اور صحت کو فروغ دے کر، اپنے انسانی وسائل کو ترقی دینے کیلۓ ہمیں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنی ہیں۔

6. ہمیں اپنی جمہوریت کو مستحکم کرنا اور آئین کی بالادستی کو یقینی بنانا ہے۔

7. آخر میں ہمیں اپنا بین الاقوامی سفارتی مقام معتبر رکھنا اور اس میں اضافہ کرنا ہے۔

[اسی طرح کے سات نقاط پرویز صاحب نے چھھ سال قبل اپنے پہلے خطاب میں دہراۓ تھے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ چھھ سال گزرنے کے بعد بھی حالات وہیں کے وہیں ہیں اور اب ان سات نکات کیلۓ انہیں مزید وقت درکار ہے۔ ہاں انہوں نے دہشتگردی اور انتہاپسندی چھ سال میں ختم کرنے کی کامیاب کوشش ضرور کی ہے مگر یہ ان کی نہیں بلکہ ان کے آقاؤں کی ضرورت تھی]۔

پاکستان کو ابھی بہت آگے جانا ہے۔ ہم نے بہت ترقی کی ہے، لیکن ابھی آرام نہیں کرسکتے۔ عزم، تواتر اور سچی حب الوطنی کے جزبے سے لیس، ہم انشاءاللہ ایک متحرک، ترقی پسند اور معتدل اسلامی ملک اور بین الاقوامی برادری کے ایک کارآمد رکن بن جائیں گے۔ ایک ایسا ملک جس کی مثال دی جاۓ، نہ کہ اس سے گریز کیا جاۓ۔

[پاکستان نے ترقی خاک کی ہے۔ نہ پینے کا صاف پانی میسر ہے لوگ گندہ پانی پی پی کر ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہورہے ہیں۔ کرپشن زروں پر ہے۔ اقربا پروری کا دور دورہ ہے، انصاف غریب آدمی کی پہنچ سے پہلے بھی باہر تھا اور اب بھی باہر ہے،پولیس کی اوورہالنگ کے باوجود وہی حالت ہے، واپڈا بجلی کی سپلائی پوری نہیں کرپارہا، تجارتی خسارہ بڑھتا جارہا ہے، مہنگائی رکنے کا نام نہیں لے رہی، تعلیمی مافیا غریبوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے، فوج پراپرٹی کے کاروبار سے مال بنا رہی ہے، زلزلہ زدگان کی حالت وہی کی وہی ہے، لوگوں کو اشیاۓ صرف قسطوں پر دے کر بنیا راج کی بنیاد رکھھ دی گئ ہے]۔

[پرویز صاحب چونکہ اسلام آباد میں رہتے ہیں اور اسلام آباد میں خوب ترقی ہوئی ہے، کئی سیکٹر کھلے ہیں، جی ایچ کیو بن رہا ہے، گاڑیوں کی تعداد بڑھی ہے، موبائل فون کھلونوں کی طرح ہر شخص کے ہاتھ میں ہیں، اسلۓ پرویز صاحب کو لگتا ہے کہ سارا ملک اسلام آباد کی طرح خوشحال ہے۔ حالانکہ اسلام آباد کا باقی ملک سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ اسلام آباد ہمارے آقاؤں کی رہائش اور انتظامیہ کا گڑھ ہے۔ اگر اسے جدید نہیں بنائیں گے تو پھر یہ لوگ تنگ ہوں گے۔ باقی عوام تنگ ہے تو اپنی بلا سے]۔