ذوالفقار علي بھٹو کي آج سالگرہ منائي جارہي ہے۔ بھٹو ايک ذہين اور چالاک سياستدان تھے مگر آخر ميں خود پر حد سے زيادہ اعتماد کي وجہ سے اپني زندگي سے ہاتھ دھو بيٹھے۔ انہيں آخر دم تک يہي يقين رہا کہ جنرل ضياء انہيں پھانسي نہيں لگا سکيں گے۔ مگر جنرل ضياء جو افغانستان کي جنگ کي وجہ سے اتحاديوں کے لۓ کام کرنے لگے تھے اور اتحاديوں نے ہي انہيں مشورہ ديا تھا کہ اگر سکون سے حکومت کرني ہے تو بھٹو کو اپنے راستے سے ہٹا دو۔ جنرل ضياء نے ايک بار کہا تھا کہ قبر ايک ہے اور آدمي دو ہيں يعني اگر انہوں نے بھٹوکو نہ مارا تو بھٹو انہيں مار دے گا۔ اسي لۓ انہوں نے بھٹو کيخلاف قتل کا ڈرامہ رچايا اور عدالتوں کو مجبور کيا کہ وہ بھٹو کو پھانسي کي سزا سنا ديں اور کمزور دل اور لاچار ججوں نے ايسا ہي کيا۔

بھٹو نے مشرقي پاکستان کي علحدگي رکوانے ميں کوئي کردار ادا نہ کيا بلکہ اس کي عليحدگي کي وجہ سے وہ بچے کھچے پاکستان پر حکومت کرنے کے قابل ہوۓ۔ بھٹو نے شملہ معاہدہ کرکے اپنے قيدي تو چھڑوا لۓ مگر اس کے بدلے کشمير کا مسلہ اقوام متحدہ ميں نہ اٹھانے کا وعدہ کرليا۔ بھٹو نے پاکستان کے ايٹم بم کي بنياد تو رکھ دي مگر لوگوں کو روٹي کپڑا مکان نہ دے سکے۔ بھٹو نے سکولوں کو قوميا کر تعليم مفت کردي مگر تعليم کا بيڑہ غرق کرنے کي بنياد بھي رکھ دي۔ بھٹو نے لوگوں کے سياسي شعور کو بيدار کيا مگر ساتھ ساتھ اپنے مخالفين کو تنگ بھي کيا۔ بھٹو جس طرح ہنگامي طور پر سياست کے آسمان پر ستارہ بن کر چمکا اسي طرح اپني بيوقوفيوں کي وجہ سے جلد ہي ڈوب بھي ہوگيا۔

انیس سو اناسی میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جنہیں ایک فوجی بغاوت میں معزول کیا گیا تھا، انکے سیاسی مخالف کے قتل کے الزام میں ایسے مقدمے میں پھانسی دے دی گئی جس پر بہت تنقید ہوتی رہی تھی-

 ایک ایسی مثال ترکی کے وزیر اعظم عدنان میندرس کی بھی ہے جن کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں پھانسی دے دی گئی اور پھر ایک جزیرے پر دفن کر دیا گیا- عدنان میندرس کی پھانسی کے کئی سال بعد ترکی نے ان کا مقدمہ پھر سے کھولا اور انہیں انکے بعد مماتی معافی دے دی اور انکی لاش قدرے گمنام جزیرے سے لاکر استنبول میں دفن کی جہاں انکا بڑا مزار بنوایا-

 

اس مقدمے میں سزائے موت کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران اپنی دفاعی تقریر میں بھٹو نے عدنان میندرس کا بھی ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ ’جنرل ترکی کی مثالیں دینے کے بڑے شوقین ہیں۔ میں جب وزیر خارجہ تھا تو ایوب خان نے مجھے عدنان میندرس کی پھانسی پر رحم کی دراخواست کے ساتھ جنرل گرسل کے پاس بھیجا تھا۔میں نے جب جنرل سے وزیر اعظم عدنان میندرس کی جان بخشی کے لیے کہا تھا تو انہوں نے کہا تھا عدنان میندرس کی سزا پر عملدر آمد سے ترکی بحران سے نکل آئے گا جس پر میں نے ان سےکہا تھا ترکی کا بحران شروع عدنان میندرس کی پھانسی سے ہی ہوگا-‘

بہرحال چیف جسٹس انوارالحق (ایک اور جانے پہچانے ’بھٹو ہیٹر‘) کی سربراہی میں قائم چار رکنی بینچ نے جسٹس دراب پٹیل کے اختلافی نوٹ کے ساتھ بھٹو کی اپیل مسترد کردی۔ ’درداں دی ماری دلڑی علیل ہے‘ جیسی سرائیکی شاعری پر اپنی دفاعی تقریر ختم کرنے والے بھٹو نے سپریم کورٹ کے آگے یہ بھی دہرایا تھا کہ کس طرح لاہور ہائيکورٹ میں مولوی مشتاق اور انکے ساتھی ججوں نے ان کے ساتھ ذلت آمیز رویہ اختیار کیے رکھا- ’می لارڈ ہم سندھی میں اسے جہاں خانی انصاف کہتے ہیں-‘

بھٹو کی سزائے موت کی ججمینٹ اتنی ’سکینڈلس‘ بنی کہ بہت سے لوگ کہتے تھے کہ اسے لکھا ہی بابائے ‘نظریہ ضرورت‘ اے کے بروہی نے تھا-

اللہ بخش کریم بخش عرف اے کے بروہی جو بنیادی طور پر فلسفے کے شاگرد تھے ان دماغوں میں سے تھے جو ہند یا سندھ کبھی کبھار پیدا کرتے ہیں لیکن مبصرین کہتے ہیں کہ پاکستان کے صفِ اول کے اس قانون دان اورنام نہاد اگرتلہ سازش کیس میں شیخ مجیب الرحمان کے وکیل نے اپنی تمامتر صلاحیتیں زیادہ تر پاکستان میں فوجی آمریتوں کو قانونی جواز و دوام فراہم کرنے میں صرف کیں-

ضیاء الحق کے زمانے میں جس دن اے کے بروہی فوت ہوئے اس دن سندھ کا بدنام لیکن ’رابن ہوڈ شہرت‘ رکھنے والا ڈاکو پرو چانڈیو بھی ایک جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا، پروچانڈیو کے جنازے پر دو ہزار اجرکیں پڑي تھیں (جسکا مطلب ہے کہ دو ہزار لوگوں نے وہ اجرکیں اس کی لاش پر ڈالی تھیں) جبکہ اے۔کے بروہی کے جنازے کو بہت ہی خانگي طور پر ایک فوجی قبرستان میں دفنایاگیا –

اب تو بھٹو کو پھانسی کی سزا سنانے والے ججوں میں سے ایک سابق جج نسیم حسن شاہ بھی کہہ چکے ہیں انہوں نے پھانسی کے حق میں فیصلہ ضیاء حکومت کے دباؤ میں آکر دیا تھا-

جسٹس دراب پٹیل نے اپنی زندگی کے آخری دنوں ایک انٹرویو میں ایک خاتون صحافی کو بتایا تھا کہ مقدمے کے ایک اہم گواہ (غالباً غلام حسین ) کو جیل سے راولپنڈی کے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال میں رکھا گیا تھا جہاں اس سے سینئر آرمی عملدار ملاقاتیں کرتے تھے۔ ایک دن انہیں ان کے دوست نے بتایا کہ وہ جب سی ایم ايچ روالپنڈی میں داخل اپنے کسی بیمار عزیز کو ملنے گئے تو انہوں نے مذکورہ گواہ کو وی آئي پی انتظامات میں دیکھا۔ جسٹس دراب پٹیل کا کہنا تھا کہ بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ سخت متعصب، ڈرائے گۓ اور خریدے ہوئے تھے اور ان کی گواہی کسی بھی صورت میں قابل اعتبار یا قابل قبول نہیں تھی۔ جبکہ پاکستان کی اعلی عدلیہ کے حلقوں میں مولوی مشتاق اور انوارالحق کا بھٹو کے خلاف عناد کسی سے پوشیدہ نہیں تھا اور وہ چھپاتے بھی نہیں تھے۔ بھٹو نے اکتوبر انیس سو اٹھہتر میں مولوی مشتاق کے ان کے ساتھ عناد کی شکایت کرتے ہوئے انکے مقدمے کا ری ٹرائل کرنے کو کہا تھا-

کیا پاکستان میں وہ وقت بھی آئے گا جہاں ترکی کے عدنان میندرس کی طرح بھٹو کا کیس پھر سے اٹھایا جا سکے گا؟ نہيں وہ وقت کبھي نہيں آۓ گا کيونکہ بھٹو کو پھانسي پاکستان کے قانون نے نہيں دي تھي بلکہ فوج نے دي تھي اور فوج پاکستاني سياست کا ايک اہم ستون ہے۔ يہي وجہ ہے کہ بينظير دو دفعہ ايوان اقتدار ميں رہنے کے باوجود اپنے باپ کے مقدمے کو دوبارہ نہ کھول سکيں۔ اس کي يہي وجہ ہے کہ وہ فوج سے ٹکر نہيں لينا چاہتي تھيں اور نہ ہي جج مافيا کو اپنے خلاف کرنا چاہتي تھيں۔ بھٹو کا مقدمہ اسي دن دوبارہ کھلے گا جب ملک ميں حقيقي جمہوريت ہوگي اور فوج امريکہ کي طرح ايک سول وزيرِ دفاع کے ماتحت ہوگي۔