پاکستان کرکٹ بورڈ نے ورلڈ کپ کیلۓ کرکٹ ٹيم کا اعلان کردیا ہے۔ ہم نے اب پاکستان ٹیم کی انڈیا، انگلینڈ اور ساوتھ افریقہ کے خلاف سیریز اور چیمپئنز کرکٹ ٹورنامنٹ کو بڑے غور سے دیکھا ہے۔ پاکستان ٹیم کی کارکردگی ایک درمیانے درجے کی ٹیم کی رہی ہے۔ اب تک بیٹنگ میں پاکستان صرف تین تجربہ کار بیٹسمینوں یونس خان، محمد یوسف اور انضمام الحق پر انحصار کرتا رہا ہے۔ باقی بیٹسمین کوئی خاص کمال نہیں دکھا سکے۔ اسی طرح باؤلنگ میں اس وقت پاکستان کے پاس صرف شعیب اختر تجربہ کار باؤلر ہے مگر وہ زیادہ تر زخمی ہونے کی وجہ سے کھیل نہیں سکا۔ محمد آصف اور عمر گل ابھرتے ہوۓ باؤلر ہیں مگر ان کے پاس تجربہ کم ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو کیا کرنا چاہۓ کہ ورلڈ کپ جیتا جاسکے۔ اس بات پر ہم نے کافی غور و خوض کے بعد مندرجہ ذیل حکمتِ عملی ترتیب دی ہے۔ وہ یہاں ہم اس امید پر پوسٹ کررہے ہیں کہ شائد کرکٹ بورڈ کے کسی ممبر یا کرکٹ ٹيم کے کھلاڑی کا کبھی ادھر سے گزر ہوجاۓ اور وہ ان باتوں پر غور کر سکیں۔
1۔ پاکستانی بیٹسمین ہک شاٹ کھیلنے کا بلکل تجربہ نہیں رکھتے اور باؤلر کی شارٹ بال کو ہک کرنے کی کوشش میں اکثر وکٹ گنوا بیٹھتے ہیں۔ ہمارے بیٹسمینوں کو ورلڈ کپ میں ہک شاٹ بالکل نہیں کھیلنی چاہۓ۔
2۔ ہمارے اکثر بیٹسمین آف سٹمپ پر پڑ کے باہر جاتی گیند کو شروع میں اچھی طرح نہیں کھیل پارہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ وہ اس گیند کو بناں اپنے قدموں کو ہلاۓ شاٹ کھیلتے ہیں اور وکٹ کیپر یا سلپ میں کیچ ہوجاتے ہیں۔ بیٹسمینوں کو چاہۓ کہ باہر جاتی ہوئی گیند کو کھیلنے کا فیصلہ آخری گھڑی میں نہ کریں۔ اگر انہوں اس گیند کو پہلے کھیلنے کا موڈ بنا لیا تو قدم آگے بڑھا کر کھیلیں وگرنہ گیند کو وکٹ کیپر کیلۓ چھوڑ دیں۔
3۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جب ایک آدمودہ بیٹسمین آخر میں بچ جاتا ہے تو وہ ایک تو اپنے باؤلروں کو گیندوں کا سامنا کرنے کیلۓ چھوڑ دیتا ہے اور دوسرے پھر بھ ٹک ٹک لگاۓ رکھتا ہے۔ اس موقع پر بیٹسمین کو چاہۓ کہ وہ پہلے تو کوشش کرے کہ زیادہ تر گیندوں کا خود سامنا کرے اور دوسرے جارحانہ بیٹنگ کرے تاکہ آخر میں بچ رہنے کی بجاۓ میدان میں ملنے والے وقت سے فائدہ اٹھا کر مزید رن بنا لے۔
4۔ شاہد آفریدی کو چاہۓ کہ وہ جلد بازی میں اپنی وکٹ نہ گنواۓ۔ ہم نے دیکھا ہے کہ وہ آتے ہی چوکے چھکے لگانے کے چکر میں آؤٹ ہوجاتا ہے۔ اس کے لمبے چوڑے ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اپنی طاقت کا استعمال بے تحاشا کرے بلکہ بہتر ہوگا اگر سوچ سمجھ کر زور لگاۓ۔
5۔ تمام بیٹسمینوں کو اپنی سابقہ اننگز کا جائزہ لے کر اپنی کمزوریوں سے آگاہ ہونا چاہۓ اور کوشش کرنی چاہۓ کہ وہ جس جس شاٹ میں ماہر نہیں ہیں اس کو نہ کھیلیں اور اپنی پسند کی شاٹ کا انتظار کریں۔
6۔ وکٹ کیپر کو چاہۓ کہ وہ اپنا دھیان ادھر نہ بٹنے دے اور ہر گیند پر نظر رکھے۔ وہ ماشااللہ اب کافی تجربہ حاصل کرچکا ہے اور اسے بھی اپنی کمزوریوں کا جائزہ لینا چاہۓ۔
7۔ اب جو تھوڑا سا وقت بچا ہے ہمیں ایک دو نائب کوچوں کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں جو بیٹسمینوں اور باؤلروں دونوں کی کمزوریوں کی نشاندہی کریں اور پھر ان کو دور کرنے کی پریکٹس کرائیں۔
8۔ پاکستانی ٹيم اوپننگ بیٹسمینوں کی کئی جوڑیاں آزما چکی ہے مگر اب تک کوئی بھی اوپنر لگاتار اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکا۔ اوپننگ بیٹمسمین کو چاہۓ کہ وہ باہر جاتی ہوئی گیند کو پہلے پانچ سات اوورز کھیلنے سے پرہیز کریں۔ اوپنر کیلۓ ضروری ہے کہ وہ حوصلے سے کام لے اور جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرے۔
8. ہمارے باؤلرز ون ڈے میں الٹی سیدھی گینديں کرا کے وکٹ لینے کی کوشش شروع کردیتے ہیں اور رن روکنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اگر ان کا تکا لگ جاۓ تو ٹھیک وگرنہ مخالف ٹيم رنز کے ڈھیر لگا دیتی ہے۔ اچھے باؤلر کیلۓ ضروری ہے کہ وہ باؤنسر اور شارٹ بال پھینک کر باؤلر کو رسکی شاٹ کھیلنے پر نہ اکساۓ کیونکہ یورپی بیٹسمین ہم سے زیادہ مہارت رکھتے ہیں اور وہ ان گیندوں پر خوب رن بناتے ہیں۔ اچھے باؤلر کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی لائن اور لینتھ پر کنٹرول رکھتے ہوۓ بیٹسمین کو رن لینے سے روکنے کی کوشش کرے۔ جب بیٹسمین رن نہیں بناپاۓ گا تو وہ دباؤ میں آکر الٹی سیدھی شاٹ کھیلنے کی کوشش کرے گا۔ رانا نوید الحسن کیلۓ یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اپنی لائن اور لینتھ پر کنٹرول حاصل کرے اور نپی تلی باؤلنگ کرے۔ محمد آصف تیز گیند کرانے کی کوشش میں اکثر نو بال اور وائڈ بال پھینک دیتا ہے۔ مانا کہ اس کا جوان خون ہے مگر اسے بال پر کنٹرول کو سپیڈ پر ترجیح دینی چاہۓ۔
9. سپنر کی کوشش ہونی چاہۓ کہ اپنی گیندوں میں ورائٹی پیدا کرے اور بیٹسمین کو معلوم ہی نہ ہونے دے کہ اس کی اگلی بال کدھر ٹرن لے گی۔
10۔ ہماری ٹيم کیچ چھوڑنے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ فیلڈنگ پر بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے اوراب تک کوچ وولمر ٹیم کو فیلڈنگ میں ماہر نہیں بنا سکا۔
11۔ ہماری ٹيم ابھی ناتجربہ کار ہے اور اس کا نعم البدل صرف اور صرف ٹیم ورک ہے۔ اگر پوری ٹیم مل کر کھیلے گی اور انفرادی کارکردگی پر توجہ کی بجاۓ ٹيم ورک کا خیال رکھے گی تو ضرور کامیاب ہوگی۔ ٹیم کے مورال کو بلند کرنے کیلۓ بھی کوچ کو ضروری اقدامات کرنے ہوں گے۔
12۔ اب تک ہم یہ بھی سنتے آۓ ہیں کہ ٹیم کے کچھ ممبران راتوں کو جاگتے ہیں، کلبوں میں جاتے ہیں اور اس جگراتے کی وجہ سے ان کی کارکردگی خراب ہوتی ہے۔ اس ورلڈ کپ میں ٹيم کے ہر کھلاڑي کو اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ وہ اپنی نیند پوری کریں اور یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کا آخری غیرملکی دورہ ہے اسلۓ جتنی عیاشي کرنی ہے اسی دورے کے دوران کرلیں۔
13۔ ٹیم کو پاکستانی عوام کی دعاؤں کی سخت ضرورت ہے۔ ہمیں چاہۓ کہ ہم ان کی حوصلہ افزائی کريں تاکہ وہ جم کر اپنے بہتر کھیل کا مظاہرہ کرسکیں۔
3 users commented in " ورلڈ کرکٹ کپ 2007 کی تیاری "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآپ کے مشورے اپنے اندر وزن رکھتے ہیں۔ گو کہ میں کھیل کی باریکیاں اس درجے پر نہیں جانتا مگر میں انظمام الحق سے متفق ہوں کے اتنی زیادہ کرکٹ کھیلنے کے بعد کھلاڑیوں کا ان فٹ ہونا فطری عمل ہے۔ آئی سی سی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیے کے وہ ٹیم شیڈول پر توجہ کریں یا پھر روٹیشن کی پالیسی اپنائیں اور ہر پوزیشن کے لیے کم از کم دو کھلاڑی دستیاب ہونے چاہئیں اور کم از کم کرکٹ کی حد تک تو کھلاڑیوں کی ایسی کوئی قلت پاکستان میں نہیں۔ پاکستان کی کارکردگی اگر تسلی بخش نہیں تو ایسی بری بھی نہیںرہی ہے۔ ویل ڈن ٹیم ۔
بھاڑ میں جائے کرکٹ اور پاکستانی کرکٹ ٹیم
نہ وہ لوگ ہمارے لیے کھیلتے ہیں نہ ہی ملک کے لیے
انشاءاللہ یہ ٹیم یہ ورلڈ کب بھی ہارے گی
پر سانوں کیہہ
Leave A Reply