پہلے وفاقی وزیر بابرغوری نے درخواست کردی کہ الیکشن ملتوی کردیے جائیں۔ پھر چوہدری شجاعت نے حالات کو دیکھتے ہوئے کہا کہ الیکشن ایک سال کیلئے ملتوی بھی ہوسکتے ہیں۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کا بھی خیال ہے کہ الیکشن لیٹ ہوسکتے یں۔ پیر پگاڑا تو پہلے ہی کہ چکے ہیں کہ انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے۔
جس طرح بابر غوری صاحب نے ذاتی مفاد کی خاطر الیکشن ملتوی کرنے کی درخواست کی ہے تاکہ وہ مزید کچھ عرصہ وزیر بنے رہیں، اسی طرح دوسرے حکومتی سیاستدان بھی چاہتے ہیں کہ جتنا زیادہ عرصہ وہ حکومت میں رہ سکیں رہ لیں۔ اس کی ایک ہی وجہ نظر آتی ہے کہ ان لوگوں کو اپنے جیتنے کی امید نہیں ہے۔ جس طرح ان لوگوں نے غریبوں کو مہنگائی کی چکی میں پیس کر مال بنایا ہے ان کو شک ہے کہ یہی غریب اب ان کیخلاف ووٹ ڈالیں گے۔ جنرل صدر مشرف تو کسی بہانے کی تلاش میں ہیں۔ جونہی خطے کے حالات نے ذرا سا بھی پلٹا کھایا انتخابات ملتوی کر دیے جائیں گے چاہے ان حالات کا اثر ملک پر پڑے نہ پڑے۔
انتخابات کے ملتوی ہونے کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ عوام مست سوئے پڑے ہیں اور ان کو بھی اس سے کوئی سر و کار نہیں کہ الیکشن آج ہوں یا کل۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ انتخابات کے بعد بھی ان کے حالات بدلنے والے نہیں۔ لیکن سادی عوام یہ بھی بھول رہی ہے کہ ان کے حالات آسمانی فرشتے نہیں بدلیں گے بلکہ جب بھی بدلے ان کی کوششوں سے بدلیں گے۔
ہر حال میں جیت جنرل صاحب کی ہے۔ اگر لیکشن ہوئے اور جنرل صاحب کی پارٹی جیت گئ تو وہ جیت جائیں گے اور اگر ان کی پارٹی ہار گئی تو وہ مارشل لگا دیں گے اور پھر بھی جیت جائیں گے۔ گھاٹے میں رہیں گے وہ سیاستدان جو ان کی پارٹی سے باہر ہوجائیں گے۔ جنرل صاحب ہارنے کے موڈ میں نہیں ہیں اور اسی لیے وہ کہ چکے ہیں کہ انہیں موجودہ اسمبلی دوبارہ صدر منتخب کرے یا آنے والی، وہ کہیں نہیں جانے والے۔
یہ حقیقت ہے کہ جتنی مہنگائی جنرل صدر پرویز صاحب کی حکومت میں ہوئی ہے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگ پہلے سے زیادہ سیانے ہوچکے ہیں۔ اس دفعہ عوام نے ہوسکتا ہے کہ مہنگائی کے عذاب میں انہیں مبتلا کرنے والوں کو اگلے انتخابات میں سبق سکھانے کا تہیہ کر رکھا ہو۔ یہی ڈر مسلم لیگ ق کے لیڈروں کو جکڑے بیٹھا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ انتخابات کسی وجہ سے لیٹ ہوجائیں چاہے اسکیلۓ بھٹو کی طرح انہیں ملک کو دولخت ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
انتخابات وقت پر کرانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے انقلابٍ فرانس کی تقلید۔ عوام اٹھیں اور اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کردیں۔ پھر وہ دیکھیں گے کہ اسلام آبادی مچھر کس طرح اپنی جان بچانے کیلئے گٹروں میں گھستے ہیں۔
ملک کے حالات تبھی بدلیں گے جب عوام چاہیں گے۔ جس دن عوام کو اس نقطے کی سمجھ آگئی ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ تب تک مہنگائی کا مزہ چکھئے اور حکومت سے اچھے وقتوں کی بے کار آس لگائے رکھئے۔
5 users commented in " دال میں کچھ کالا ضرور ہے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackدال میں کچھ کالا ہے یا پوری دال ہی کالی ہے ؟ ہمارے یہاں ابھی تک الکیشن ہوئے ہی کہاں ہیں ؟ ہمارے یہاں سیلیکشن کی روایت ہے۔۔ کیا آپ میرے اس بات سے متفق نہیں ہیں کے کئی سیاست دان تو ایسے ہیں جو صرف سیلیکشن جیت کر ہی آسکتے ہیں الیکشن جیتنا ان کے بس میں نہیں ۔
ہمارے سیاست دان بجائے اس کے کہ یہ کہیں کے موجودہ صورت حال کے پیش نظر الکیشن جلدی کروا کر ایک مضبوط حکومت قائم کی جائے اس بات پر مصر ہیں کے صدر کسی طرح الیکشن کا ٹنٹا ہی ختم کردیں اور موجودہ اسمبلیوں کو تاحیات اسمبلیاں نامزد کردیں ۔۔ پھر دیکھیں مسلم لیق میں لوٹوں کا اتوار بازار۔۔
وہ کیک اور روٹی والا قصہ تو ہمارے ملک میں ہو بھی چکا مگر انقلاب آیا ہی نہیں ۔۔ میرا خیال ہے ابھی کچھ دن لگیں گے۔۔ آپ کیا کہتے ہیں؟
انقلاب آئے گا تو سہی مگر بہت خونی ۔۔ ۔ بس اسی چیز کا ڈر ہے ۔ ۔
ہمارے خیال میں انقلاب ابھی بہت دور ہے۔ کم از کم کئی سالوں کی بات کریں۔ ابھی لوگوں کو ان کے آقا اتنی دال روٹی فراہم کررہے ہیں جس سے ان کا آدھا پیٹ بھر سکے۔ آج کے آقا بھی سیانے ہیں انہیںمعلوم ہے اگر روٹی پانی بالکل بند کردیا تو لوگ بغاوت پر اتر آئیں گے۔ اسی لئے ہم نے دیکھا ہے جونہی ملک دیوالیہ ھونے لگتے ہیں ان کے آقا ان کے قرضےوں کی قسطیں کچھ عرصے کیلئے ریشڈیول کردیتے ہیں اور اگر حالات بہت ہی برے ہوجائیں تو سرے سے قرضے معاف ہی کردیتے ہیں۔
تازہ خبر یہ ہے کہ اب وفاقی وزیر برائے مذہبی امور اعجاز الحق بہی ان لوگوں میں شامل ہوگئے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر صدر کو اسمبلیوں نے دوبارہ صدر نہ چنا تو مارشل لا بھی لگ سکتا ہے۔
یہ تو ڈرانے والی بات ہوئی۔ لیکن یاد رہے کہ اپوزیشن ڈرنے والی نہیں وھ اسلئے کہ پاکستان کی سیاست کا یہ اصول رہا ہے کہ نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے۔ اگر اپوزیشن کو قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ میں سے حصہ نہ ملا وہ نہیںچاہے گی کہ حکومتی مسلم لیگ ق مزے کرتی رہے۔
پیر پگاڑا نے پھر کہا ہے کہ انتخابات ہوتے نظر نہیںآتے۔
صاحب جمہوریت اسی کا نام ہے۔۔ اگر ملک کی پارلیمینت یہ سمجھتی ہے کہ الیکشن جیسی فضول چیز کی فی الحال کوئی ضرورت نہیں تو جمہور کو اکثریت کا احترام کرنا چاہیے۔۔ رہی بات اعجازالحق کی تو ان سے آپ کیا امید کر رہے ہیں؟ انکا تو خمیر ہی مارشل لاء سے اٹھا ہے ۔
Leave A Reply