ایک مرد مجاہد اٹھا اس نے بڑے شہروں میںچند جلسے کیے اور لوگوں کو انقلاب کیلیے اکسایا۔ اس نے انقلاب کے بعد کے اقدامات کو ایک کتابی شکل میںڈھالا اور شہر شہر میں یہ کتاب تقسیم کرنی شروع کر دی۔ مہنگائی کے ستائے لوگ اس کے یچھے چل دیے اور ایک ملین مارچ کی شکل میں کراچی سے چل پڑے۔ کارواں چلتا گیا اور بڑھتا گیا۔ اسلام آباد پہنچتے پہنچتے یہ کارواں ایک کروڑ تک پہنچ چکا تھا۔ ایک کروڑ انسانوں نے حکومت کا تختہ الٹ کر اپنے میں سے کیئر ٹیکر گورنمنٹ چنی اور اپنے اپنے گھروں کو چل دیے۔ اس کیئر ٹیکر گورنمنٹ نے دو چار سادے سے اصولوں پر انتخابات کروائے اور ملک میں پہلی بار ایک عام آدمی کو حکومت مل گئی۔ اس عام سے حکمران نے پارلیمنٹیرینز میں سے انتہائی قابل ممبران کو وزیر بنا دیا۔
اس حکومت نے پانچ سال کا پلان دیا۔ بیرونی قرضے لینے بند کردیے، انتہائی سادہ حکومت کی روایت ڈالتے ہوئے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا۔ وہ دن اور آج کا دن نہ کوئی امیر حکمران بنا، نہ قرضہ لینے کی ضرورت پڑی اور لوگ خوشحال سادہ زندگی گزارنے لگے۔
اس کے بعد ہماری آنکھ کھل گئی۔
25 users commented in " یہ خواب حقیقت کب بنے گا؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackکاش ایسا ہو سکتا۔۔۔ کاش۔۔۔ یہ خواب نہ ہوتا۔۔۔ کاش ہم میں بھی ایماندار لوگ ہمارے رہنما ہوتے۔۔۔ کاش ہم پاکستان کو اسلام کی راہ پر چلتے ہوئے بھی امن کا گہوارا بنا سکیں۔۔۔ کاش ہم اسلام کی راہ پر چلتے ہوئے بھی ترقی یافتہ ملک کے باشندے ہوتے۔۔۔ کاش۔۔۔
یہ خواب اتنا بھی خواب نہیں ہے اللہ کرئے کہ حقیقت بن جائے
آمین
یہ خواب حقیقت بن سکتا ہے۔۔۔۔
بس پہلے بھائی کراچی آجائیں۔
ابھی دیکھئے گا ۔لنک چپکائے جائیں گے انقلاب کیلئے۔
آپ کے خواب سے ہمیں احمد ندیم قاسمی یاد آگئے جو کہتے ہیں..
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
لیکن یہ خواب آپ نے کراچی سے کیوں شروع کیا۔ حیرت ہے ابھی تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ کراچی کے روشن خیالوں کا لایا ہوا انقلاب ہمیں نہیں چاہئیے۔ ہم تو جناب، وزیرستان کی طرف سے آئے ہوئے انقلاب کو ہی اصل سمجھیں گے۔
تو جب تک یہ اصل کا جھگڑا نہ مک جائے، جو بھی انقلاب آئے گا، ہمارے گیارہ سالہ اسلامی انقلاب کی طرح نہ پیر رکھتا ہوگا نہ جوتے۔
دراصل ہم لوگوں اکثرکھلی ہوئی آنکھوں سےخواب دیکھتےہیں۔ ان خوابوں کوحقیقت کی طرف دل وجان سےعمل کی کوشش نہیں کرتےیہی وجہ ہےکہ خواب خواب رہ جاتاہےحقیقت نہیں بن سکتاہے۔
جاوید اقبال صاحب
آپ کی بات سو فیصد درست ہے اور یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم کسی موسی علیہ اسلام کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیںجو ہمیں من و سلوی لا کر دے۔
اسلامی ملک کی آمریت کے پیچھے اس کی فوج ہوتی ہے۔ کبھی فوج سامنے آ کر حکومت کر رہی ہوتی ہے اور کبھی پیچھے بیٹھ کر حکومت کرتی ہے۔ ملک کے وسائل پر ان کا قبضہ ہوتا ہے، انہوں نے کبھی دشمن ملک کے اتنے سپاہی نہیں مارے ہوتے جتنا اپنی عوام میں قتل ِعام کیا ہوتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کے میدان جنگ میں ان سے دو ہفتے سے زیادہ لڑا بھی نہیں جاتا۔ میدانِ جنگ میں استعمال ہونے والا اسلحہ یہ اپنی عوام پر چلاتے ہیں۔ یہ ہر اسلامی ملک کی فوج کی مشترکہ خوبی ہے۔
لمبی لمبی بادشاہت اور آمريت کے جانے کا وقت آگيا ہے۔ لگتا ہے سعوديہ کو کئی محلوں کا انتظام کرنا پڑےگا کيونکہ جلد ہی حسنی مبارک اور پھر کئی اور لمبی حکمرانی کے مزے لوٹنے والے “ريٹائرمنٹ” گزارنے کے لیے (ٹنوں سونے کے سوٹ کيس ليے) عازم سعوديہ ہوں گے
۔ ۔ ۔ ۔ ایک کروڑ انسانوں نے حکمرانوں کی تکا بوٹی کرنے کے بعد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آپ نے نہائت پر تشدد خواب دیکھا ہے۔ تشدد لازمی طور پہ تشدد کو ہوا دیتا ۔
خالی پیٹ انقلاب نہیں روٹی کی سوجھتی ہے۔ ہمارے عوام اسقدر پیس ڈالے گئے ہیں کہ انہیں صبح سے رات اور رات سے صبح کرنا ہی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ نظر آتا ہے۔ اسلئیے کم از کم مجھے دور و نزدیک کوئی انقلاب نظر نہیں آتا۔
جب تک ہم اپنے عوام کی ذات میں انقلابی تبدیلیاں نہیں لاتے تب تک کسی بھی تبدیلی کو انقلاب کا نام دینا درست نہیں ہوگا۔
اور اس انقلاب کے لئے ایندھن کون بنے گا؟ یہ کرپشن میںلتھڑے ہوئی عوام؟
افضل صاحب آپکا خواب تو تشدد پسندی پر مشتمل ہے،ایک ٹپیکل پاکستانی سوچ کہ دوسروں کے لیئے تو مار کاٹ اور اپنے لیئے جو کام سیدھے طریقے سے نہ ہوپائے وہاں رشوت دے کر کام نکلوالو اگرآپکو اپنی ایک پرانی تحریریاد ہو جس میں زمین کےمسئلے پر آپ نےکچھ ایسے ہی ایکسکیوز پیش کر کے آپنے رشوت دینے کو جائز قرار دیا تھا!
بھائی جی اپنی سوچ میں سب سے پہلے انقلاب لائیں!
رہی کتابیں لکھ کر انقلاب لانا تو اس کے لیئے ایک خواندہ معاشرے کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ہمارے یہاں خواندگی کا تناسب کیا ہے یہ سب کو معلوم ہے،ہاں میڈیا اس کمی کو پورا کررہا ہے،فی الحال تو ایک میثاق معیشت پیش کیا گیا ہے اگراس پرعمل نہ ہوا تو پھر دو ہی آپشن رہ جائین گے خدانخواستہ پاکستان کی تباہی یا عوام کا سڑکوں پرآکر ہر چیز کو تہ و بالا کردینا
http://ejang.jang.com.pk/2-3-2011/Karachi/pic.asp?picname=1025.gif
یہ چند لنک لگا رہا ہوں
http://ejang.jang.com.pk/2-3-2011/Karachi/pic.asp?picname=1021.gif
http://ejang.jang.com.pk/2-3-2011/Karachi/pic.asp?picname=1043.gif
بھائی جی پہلے اپنے اندر کا گند تو صاف کرلیں،اگر یہ گندصاف نہ ہوا تو یہ گند کسی انقلاب کو طاقت پکڑنے نہیں دے گا!!!!!!!!!!!!
خرم صاحب نے جو جوتا مارا ہے اس کے بعدکچھ اور کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتیِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انقلابِ ايران زيادہ دور کی بات نہيں ہے۔ جب شاہ کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا اور ملک بدر خمينی فاتحانہ انداذ ميں ملک ميں داخل ہوا تھا۔ پاکستان ميں متحدہ کا قائد غريب کی بات کرتا ہے۔ ان کو انقلاب کی کال دے دينا چاہیے پھر ديکھتے ہيں عوام کی طاقت کے سامنے کون ٹھہرتا ہے؟
پھر راج کرے گی خلق خدا
پھر تاج اچھلے جائيں گے
ملک کے خزانے بيچنے والے
لوگوں کو بھوکا مارنے والے
سب الٹے لٹکائے جائيں گے
عقابی روح جب بيدار ہوتی ہے جوانوں ميں،
تو نظرآتی ہيں انہيں اپنی منزليں آسمانوں ميں۔
عبداللہ صاحب
کچھ تلخ حقائق ایسے ہوتے ہیں جن کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ہم نے اپنی غلطی مان بھی لی تھی مگر آپ ہیں کہ جان نہیںچھوڑ رہے۔
بقول آپ کے ایم کیو ایم پر بہت سوں نے ظلم کیے، ان کے رکن قتل ہوئے۔ اب آپ بتائین اس کے جواب میںکیا ایم کیو ایم نے پھولوں کے ہار پیش کیے۔ انہوں نے بھی قتل و غارت کی۔ حتی کہ ایک وقت پر جنرل مشرف کو ایم کیو ایم کی قتل و غارت کو طاقت کا مظاہرہ کہنا پڑا۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں اسلیے ایسی بحثوں میں ناں ہی پڑیں تو بہتر ہوگا۔
آپ کی وہی مرغے کی ایک ٹانگ ہے اور اسکا نہ میرے پاس اور نہ کسی اور کے پاس کوئی علاج ہے،
اب وقت ہی آپکو آپکے لگائے الزامات کا جواب دے گا،سو وقت کا انتظار کیجیئے!!!!!!!!!!!!!!!!
قارئین کی نشناندہی پر ہم نے تشدد کے الفاظ بدل دیے ہیں۔ اب حکمرانوں کی تکا بوٹی کرنے کی بجائے ان کا تختہ الٹ دینے پر انحصار کرلیا ہے۔
بدللہ صاحب ، آپ کی “میرا پاکستان” سے نوک جھونک کب بند ہو گی؟ آپ کا متحدہ کے حق میں سدا ڈھول پیٹتے رہنا بھی طبع سلیم پر گراں گزرنے لگا ہے – میں دل سے ماضی کی قتل و غارت کو فراموش کر کے ایک پر امن مستقبل دیکھنا چاہتا ہوں- میں نے آپ سے متحدہ کی تعلیم کے متعلق پالیسی کی تفصیلات مانگی تھیں لیکن آپ نے خاموشی اختیار کر لی – کیا متحدہ کے رہنماؤں نے کبھی اس اہم سوال پی غور کیا بھی ہے کہ نہیں؟
ثاقب یہ لنک ہے
http://www.mqm.org/
یہاں فکری نشست اور اسٹڈی سرکل کے عنوان سے کچھ لکھا ہے چاہو تو پڑھ لو
کوئی ہے جو پاکستان کی حفاظت کر سکے؟
http://ejang.jang.com.pk/2-23-2011/Karachi/pic.asp?picname=1026.gif
پاکستان میں آنے والا وقت انقلابیوں کا ہی ہوگاانشاءاللہ
http://ejang.jang.com.pk/2-23-2011/Karachi/pic.asp?picname=104.gif
ایم کیو ایم مراعات یافتہ طبقے کی حکمرانی کا خاتمہ چاہتی ہے!
خدا کرئے میرے ارض پاک پر۔۔۔۔
اترے وہ فصل گل جسے اندیشئہ زوال نہ ہو۔۔
یہ خواب تب ہی حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے جب کوئی ایسا ایمان دار اور دیانت دار قائد اٹھے اور برادری ازم۔اسلحہ ،پیسے اور کرپشن کے ستونوں پر کھڑے اس فرسودہ انتخابی نظام کے بت کو پاش پاش کر دے۔افسوس کہ آج تبدیلی کا نام پربڑے بڑے جلسے منعقد کرنے والے بہت سے راہنماء بھی اسی بددیانت نظام انتخاب کا حصہ بننے پر تیار نظر آتے ہیں۔یہ ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ ہے کہ اس نطام انتخاب کو جر سے اکھاڑے بغیر کبھی بھی مخلص،ایمانداراور قابل قیادت سامنے نہیں آسکتی۔اگر تبدیلی کو کوئی بھی کوشش اس نظام کے اندر رہتے ہوئے کی گئ تو اس کے لیے انھیں چالیس چوروں کوضرورت پڑے گی جو اپنے اپنے حلقوں سے جیت کر پھر سے وہی دھندہ شروع کر سکیں جو وہ دوسری سیاسی جماعتوں کے اندر رہ کر پچھلے 63 برسون سے کرتے آئے ہیں۔مجھے سیاسی جماعتوں کے قائدین کی نیتوں پر ہر گز شک نہیں،وہ مخلص بھی ہونگے اور ان کے اندر وطن کی تقریر بدلنے کا جذبہ اور صلاحیت بھی ہوگی لیکن جب تک وہ اس کرپٹ انتخابی نظام کا حصہ بنے رہیں گے،تبدیلی ایک خواب رہے گی۔۔۔۔۔
خدا کرئے میرے ارض پاک پر۔۔۔۔
اترے وہ فصل گل جسے اندیشئہ زوال نہ ہو۔۔
یہ خواب تب ہی حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے جب کوئی ایسا ایمان دار اور دیانت دار قائد اٹھے اور برادری ازم۔اسلحہ ،پیسے اور کرپشن کے ستونوں پر کھڑے اس فرسودہ انتخابی نظام کے بت کو پاش پاش کر دے۔افسوس کہ آج تبدیلی کا نام پربڑے بڑے جلسے منعقد کرنے والے بہت سے راہنماء بھی اسی بددیانت نظام انتخاب کا حصہ بننے پر تیار نظر آتے ہیں۔یہ ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ ہے کہ اس نطام انتخاب کو جڑ سے اکھاڑے بغیر کبھی بھی مخلص،ایمانداراور قابل قیادت سامنے نہیں آسکتی۔اگر تبدیلی کی کوئی بھی کوشش اس نظام کے اندر رہتے ہوئے کی گئ تو اس کے لیے انھیں چالیس چوروں کوضرورت پڑے گی جو اپنے اپنے حلقوں سے جیت کر پھر سے وہی دھندہ شروع کر سکیں جو وہ دوسری سیاسی جماعتوں کے اندر رہ کر پچھلے 63 برسوں سے کرتے آئے ہیں۔مجھےبعض سیاسی جماعتوں کے قائدین کی نیتوں پر ہر گز شک نہیں،وہ مخلص بھی ہونگے اور ان کے اندر وطن کی تقریر بدلنے کا جذبہ اور صلاحیت بھی ہوگی لیکن جب تک وہ اس کرپٹ انتخابی نظام کا حصہ بنے رہیں گے،تبدیلی ایک خواب رہے گی۔۔۔۔۔
Leave A Reply