یہ ہمارے معاشرے کی عادت ہے کہ جب ہم دوسروں کیخلاف کانا بھوسی کرنے لگتے ہیں تو ہماری پہلی درخواست یہی ہوتی ہے کہ جو بات ہم بتانے جارہے ہیں وہ کسی اور کو نہ بتائی جائے۔ غیبت کو ایک حديث کیمطابق اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے لیکن ہم اپنے مردہ بھائی کا دھڑلے سے گوشت کھاتے ہیں اور ساتھ ہی کہتے ہیں کہ براہ مہربانی یہ بات اپنے تک ہی رکھنا اور کسی کو نہ بتانا۔ اسی طرح ہم سرگوشیاں کرنے کیلیے اکثر اپنے کمرے یا دفتر کے دروازے بند کرلیتے ہیں تاکہ ہماری غیبت کو کوئی اور سننے نہ پائے اور پھر جی بھرکر اپنے رشتہ داروں یا افسروں کیخلاف باتیں کرکے سوچتے ہیں کہ دل کا غبار ہلگا ہوگیا۔
غیبت اور چغل خوری کا گناہ اب اتنا عام ہوچکا ہے کہ یہ گناہ گناہ نہیں رہا بلکہ ہماری اقدار کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ اس گناہ کا ایک عام آدمی سے لیکر اعلی سے اعلی حکومتی عہدیدار تک شکار ہوچکا ہے اور کوئی بھی غیبت کرتے ہوئے ذرہ برابر شرم محسوس نہیں کرتا۔
یہی گناہ جب سرکاری سطح پر کیا جاتا ہے تو اسے” آف دی ریکارڈ” کا نام دیا جاتا ہے یعنی جو باتیں یا غيبتیں اس میٹنگ میں ہوئی ہیں وہ راز ہی رہیں گی۔ ابھی پچھلے ہفتے کی بات ہے جنرل صدر مشرف کچھ نامی گرامی صحافیوں سے اڑھائی گھنٹے تک ملے اور انہیں موجودہ حالات کے بارے میں اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کیا۔ اس ملاقات کی تفصیل اس میٹنگ میں شامل کالم نگار حسن نثار، عبدالقادرحسن اور جاوید چوہدری نے اپنے کالموں میں بیان کردی ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ انہیں صدر صاحب کی باتوں کو آف دی ریکارڈ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب میٹنگ ختم ہوئی تو سیکریڑی اطلاعات نے انہیں خصوصی طور پر حکم دیا کہ وہ جنرل صاحب کی باتیں کسی اور کو نہیں بتائیں گے۔
آئیں اب سوچیں اور فرض کریں کہ وہ کونسی ایسی باتیں ہوسکتی ہیں جو ان چھ صحافیوں کو بتانے سے پہاڑ نہیں ٹوٹ پڑا مگر قوم کو بتانے سے قیامت آجائے گی۔ ایسے کونسے سے راز تھے جن کے فاش ہونے سے جنرل صاحب سمجھتے ہیں کہ قوم پر مثیبت آجائے گی یا پاکستان کی ساکھ خراب ہوگی۔
ہمارے خیال میں جنرل صاحب نے حزب اختلاف اور جامعہ حفصہ کے مولویوں کی چغلیاں کی ہوں گی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے جنرل صاحب نے اپنی جماعت مسلم لیگ ق کے چند لوگوں کیخلاف بھی باتیں کی ہوں اور کہا ہو کہ یہ لوگ ان کی بینظیر سے ڈیل نہیں ہونے دے رہے۔
انہوں نے ہوسکتا ہے ایجینسیوں کی رپورٹوں کیمطابق جامعہ حفصہ کے انچارج دونوں بھائیوں پر خوب کیچڑ اچھالا ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جنرل صاحب نے کہا ہو کہ وہ مولویوں سے بالکل نہیں ڈرتے اوراگر چاہیں تو ایک منٹ میں جامعہ حفصہ اور لال مسجد کو ملیا میٹ کرسکتے ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو حزب اختلاف کے احتجاج کو اسی طرح کچل سکتے ہیں جس طرح انہوں نے بگٹی کو اپنے راستے سے ہٹایا۔
انہوں نے ہوسکتا ہے یہ بھی دعوی کیا ہو کہ چیف جسٹس کو راستے سے ہٹانا ان کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے مگرچوہدری برادران ان کو ایسا کرنے نہیں دے رہے۔ انہوں نے چیف جسٹس کی بدعنوانیوں کے ٹوتھ پیسٹ سے لیکر ٹرانسپورٹ کے ناجائز استعمال کے سارے ثبوتوں کی فائل صحافیوں کو دکھا کر دعوی کیا ہوگا کہ وہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کیخلاف کیس جیت جائیں گے۔
انہوں نے ہوسکتا ہے مسلم لیگ ق کے چند سیاستدانوں کی برائیاں بھی کی ہوں جن کے مشوروں کی وجہ سے وہ چیف جسٹس کے موجودہ کرائسسز کا شکار ہوئے ہوں اور فوجی گالی دے کر کہا ہو کہ وہ ایسا نہیں کرنا چاہتے تھے مگر ان کے ساتھیوں نے انہیں غلط مشورہ دیا۔
انہوں نے آرمی جنرلوں کے اپنے یساتھ ہونے کے ثبوت بھی دکھائے ہوں گے اور دعوی کیا ہوگا کہ ان کا آرمی پر اب بھی مکمل کنٹرول ہے۔
انہوں نے یہ بھی باور کرایا ہوگا کہ وہ اب بھی امریکہ کی گڈبکس میں ہیں اور وہ اگلے الیکشن سے پہلے وردی سمیت صدر بنیں گے اور اس معاملے میں عالمی طاقیتں خاموش رہیں گی۔
انہوں نے صحافیوں کو اعداد و شمار دکھا کر یہ بھی ثابت کیا ہوگا کہ وہ اب بھی مقبول لیڈر ہیں اور ان کی مدد سے مسلم لیگ ق اگلا الیکشن آسانی سے جیت جائے گی۔
صحافیوں کو یہ تو حکم تھا کہ وہ جنرل صاحب کی باتیں نہیں بتائیں گے مگر یہ حکم تو نہیں تھا کہ جو مشورے صحافیوں نے جنرل صاحب کو دیے ان کا بھی ذکر نہیں کریں گے۔ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ صحافی ملک کی موجودہ صورتحال کے بارے ميں خاموش رہے ہوں اور انہوں نے جنرل صاحب کو مخلصانہ مشورے نہ دیے ہوں۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ جنرل صاحب نے صحافیوں کے مشوروں کو کوئی اہمیت نہ دی ہو اور انہیں یہ باور کرایا ہو کہ انہیں کسی مشورے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس وردی اور صدارت کی دونوں طاقتیں موجود ہیں اور وہ مختارقل ہیں۔
ہم اب تک یہی سوچ رہے ہیں کہ اگر جنرل صاحب کی صحافیوں سے ملاقات آف دی ریکارڈ ہی رکھنی تھی تو پھر اس ملاقات کا فائدہ کیا تھا۔
3 users commented in " آف دی ریکارڈ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackیہی کہ صدر ملک کی صورتحال سے باخبر ہیں لہذا ان کے بے خبر نہ سمجھا جائے۔
جاوید چوہدری نے اس ملاقات کے متعلق اپنے کالم میں لکھا کے ملاقات کے بعد انہوں نے عبدالقادر حسن سے پوچھا کہ دوبارہ ملاقات کب ہوگی تو حسن صاحب نے جواب دیا “اب بہت ملاقاتیں ہوں گی کیونکہ حکومت اس دور میں داخل ہو چکی ہے جب وہ یہ سمجھتی ہے کہ اسے میڈیا ہی اس بحران سے نکال سکتا ہے“ انہوں نے یہ بھی کہا کے میڈیا کبھی بھی کسی بھی حکمران کو بحران سے نہیں نکال سکا۔۔
میں انکے اس بیان سے متفق ہوں کے حکومت نہ صرف یہ کے اپنی بے بسی محسوس کرنے لگی ہے بلکہ مشرف صاحب کو سنگینی کا بھی اندازہ ہے مگر وہ ایسا کوئی تاثر نہیں دینا چاہ رہے کے قوم انکی کمزوری کو بھانپ سکے اور شاید اسی لیے انہوں نے بہت ہی مشہور کالم نویسوں کو بلا کر لابنگ کا آغاز کیا۔۔ مگر وہ یہ بھول گئے کے دیوار پر لکھا ہوا کون چھپائے گا۔۔ عوام کو سب صاف نظر آرہا ہے 🙂
ایک بہت پرانی کہاوت ہے کہ راز وہ ہوتا ہے جو صرف ایک انسان اور اللہ کے علم میں ہو ۔ جو بات دو انسانوں کو معلوم ہوئی وہ راز نہیں رہتی ۔ اگر صحافی صاحبان نے چھپایا ہے تو اس وعدہ کی بناء پر جو ان سے لیا گیا ۔ یہ صحافیوں کا اچھا عمل ہے ۔
بات صحیح کہی راشد کامران صاحب نے کہ نوشتہِ دیوار کون چھپائے گا ۔
Leave A Reply