ہماری حکومت نے اب تک جو روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی رٹ لگا رکھی ہے اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کے نزدیک روشن خیالی پاک فوج کی ہائی جینٹری کے ماحول کی طرح پاکستانی معاشرے کو مادر پدر آزاد بنانے کا دوسرا نام ہے۔ حالانکہ یہ سراسر خام خیالی ہے اور حکومت کا خفیہ ایجینڈا ہے جس کے پردے میں حکومت ملک کو بے راہ روی کی طرف اسلیے دھکیل رہی ہے تاکہ مستقبل میں ایک خالص اسلامی معاشرہ یورپ کے مقابلے میں کھڑا نہ ہوسکے۔ یہ کام وہی کرسکتا ہے جو دہریہ ہو یاکسی اور مذہب کا پیروکار ہو۔ یہ کام کسی مسلمان کا ہو ہی نہیں سکتا اور اگر کوئی اپنے آپ کو اس کام کے کرنے کے بعد بھی مسلمان کہلواتا ہے تو وہ منافق ہے۔

روشن خیالی اور اعتدال پسندی حقیقت میں اسلامی معاشرے میں ایک نئ سوچ کا نام ہونا چاہئے۔ جس کی وجہ سے مسلمان جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال سکیں اور ترقی یافتہ دنیا کا مقابلہ کرسکیں۔ اگر حکومت کی نیت میں خرابی نہ ہوتی تو وہ سب سے پہلے پاکستانی معاشرے سے جہالت دور کرنے کیلیے ایک انقلابی پروگرام ترتیب دیتی بلکہ اس انقلابی پروگرام کو لاگو کرنے سے پہلے اس پر خود عمل کرکے دکھاتی۔ اب الیکڑانک میڈیا نے عام آدمی کی آنکھیں کھول دی ہیں اور وہ اچھے برے کی تمیز آسانی سے کرنے لگا ہے یہ الگ بات ہے کہ یہ عام آدمی کسی مصلحت کی وجہ سے خاموش ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بدھو ہے۔ اب عام آدمی کو معلوم ہے کہ پاکستان کو کون استعمال کررہا ہے اور کون پاکستان کو بیچ کر کھا رہا ہے۔

اسلیے حکومت کو روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی ابتدا اپنے گھر سے شروع کرنی چاہیے تھی۔ اس مشن کی ابتدائی سیڑھی مساوات ہے یعنی جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو وہی دوسروں کیلیے پسند کرو۔ حکومت کو سب سے پہلے چاہیے تھا کہ وہ اپنے ٹھاٹھ باٹھ سے تب تک کنارہ کشی اختیارکرلیتی جب تک ایک عام آدمی ایسی ٹھاٹھ باٹھ کا متحمل نہ ہوجاتا۔

حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ تعلیم پر اپنے زرمبادلہ کا خطیر حصہ خرچ کرتی اور عام آدمی کو مجبور کرتی کہ وہ تعلیم کو عام کرنے میں اپنا حصہ بھی ڈالے۔ یعنی حکومت وڈیروں اور جاگیرداروں کے ذمے یہ کام لگاتی کہ وہ اپنے علاقوں میں اپنے خرچ پر سکول کھولیں۔ حکومت تعلیم عام کرنے کیلیے گھر گھر جاتی اور لوگوں کو قائل کرتی کہ وہ اپنے بچوں کو سکول بھیجیں۔

تعلیم کیساتھ ساتھ حکومت جدید ٹیکنالوجی کا حصول آسان بناتی اور آسان شرائط پر انڈسٹری لگانے کا بندوبست کرتی۔ جدید ٹیکنالوجی پر سرمایہ لگانے کیساتھ ساتھ حکومت اپنی لوکل صنعت کو درآمدات پر ڈیوٹیاں لگا کر تحفظ دیتی نہ کہ ڈیوٹیاں کم کرکے اپنے آقاؤں کے مال کو پاکستان میں درآمد کرکے بیچنے میں آسانیاں پیدا کرتی جو وہ کررہی ہے اور جس کی وجہ سے مقامی صنعت کا بیڑہ غرق ہورہا ہے۔

حکومت کو چائیے تھا کہ وہ صنعت کی ریڑھ کی ہڈی یعنی توانائی کا بندوبست کرتی۔ بچلی کے حصول کیلیے ایٹمی ریکٹر خریدتی یا اپنے ملک میں بنانے کی کوشش کرتی۔ پٹرول، گیس اور بچلی کو سستا کرکے زمینداروں کو زراعت میں ترقی کے مواقع فراہم کرتی۔ ہندوستان کے پنجاب کی طرح حکومت کسانوں کو کھیتوں کیلیے مفت بچلی فراہم کرتی۔

نئ بستیوں کی پلاننگ ڈیفینس سوسائٹیوں کی طرز پرکرتی تاکہ لوگ جو اپنی مرضی سے جہاں چاہتے مکان بناکر سارے شہر کی پلاننگ کو خراب کرنے سے باز آجاتے۔ ہر نئ آبادی سے پہلے سیوریج کا نظام بنایا جاتا اور ضروریات زندگی کی بنیادی چیزوں یعنی بچلی اور پانی کا بندوبست کیا جاتا۔

حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ انٹرنیٹ اور ٹی وی کو تعلیم عام کرنے کیلیے استعمال کرتی۔ فحش سائٹوں پر پابندی لگاتی تاکہ نوجوان طالبعلم اپنے کچے ذہنوں کو ان عیاشیوں سے دور کر رکھ تعلیم پر توجہ دے سکتے۔

حکومت نیب کو حزب اختلاف کی بجائے اپنے نمائندوں کی رکھوالی کیلیے استعمال کرتی۔ جس طرح ورلڈ بنک کے سربراہ پال وولف وٹز اپنی محبوبہ کو اچھی تنخواہ والا عہدہ دلوا کر زیر عتاب ہیں اس طرح حکومتی ارکان بھی ملکی دولت کو لوٹنے کے الزام میں زیر عتاب آتے۔

 حکومت بیرون ملک دوروں کو صرف ملک کیلیے بزنس حاصل کرنے تک موقوف رکھتی۔ وزیر اعظم کا چین کا موجودہ دورہ ایسی ہی ایک مثال قرار پائے گا۔ اس کے بعد جنرل مشرف کا یورپی دورہ اس کے بالکل الٹ یعنی صرف سیروتفریح اور دہشت گردی ختم کرنے کی مہم ہی کہا جائے گا۔ ہمیں نہیں لگتا کہ اس دورے سے پاکستان کو کوئی بزنس ملے یا جدید ٹیکنالوجی حاصل ہو سکے۔

اب تک روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی مد میں جو بھی امداد ملی ہے اس کا زیادہ تر حصہ فوجی امداد کی شکل میں حاصل ہوا ہے اور یہ اسلحہ اب تک حکومت نے اپنے ہی لوگوں کیخلاف استعمال کرکے بدنامی کمائی ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ امداد دینے والے ملکوں سے جدید ٹیکنالوجی درآمد کرتی، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے معاہدے کرتی اور اپنے ملک کے وقار کو اگر داؤ پر لگایا ہی تھا تو پھر اس کا ثمر کم از کم عام آدمی تک تو پہنچاتی۔

حکومت نے اب تک روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا سب سے زیادہ اطلاق جدید آرٹ اور فلمی صنعت پر کیا ہے۔ سینما گھروں میں اب بللیو پرنٹ عام چل رہے ہیں، کیبل آپریٹر گاہے بگاہے راتوں کو ٹوٹے چلا رہے ہیں، انٹرنیٹ پر نوجوان نسل ہر طرح کی بیہودگی دیکھ رہی ہے، موبائل فون سے عشق معشوقی آسان ہوچکی ہے، اور معاشرے کو اسی راہ پر ڈالا جارہا ہے جس کی وجہ سے ملک لاقانونیت کا شکار ہوسکتا ہے۔

حکومت روشن خیالی اور اعتدال پسندی اسی کو سمجھتی ہے کہ مخلوط میراتھان دوڑ کرادی جائے، دبئ کروز شپ کی سروس شروع کی جائے، ڈریم بمبے کا ڈرامہ اسلام آباد کلب میں دکھایا جائے، انڈیا کے ثقافتی طائفوں کو پاکستان بلا کر پاکستان کیخلاف باتیں سنی جائیں، نیو ایئر منایا جائے، ویلنٹائن ڈے، مدر ڈے اور فادر ڈے کی کاپی کی جائے، دفتر خارجہ کی ترجمان کو سوٹ بوٹ اور پرفیوم لگا کر میڈیا کے سامنے پیش کیا جائے، کتوں سے پیار کیا جائے ، آنٹی شمیم کی طرح کی عورتوں کو آزاد چھوڑ کر زناہ آسان بنا دیا جائے۔ اسی طرح کی دوسری خرافات کو عام کرنا ہی شاید حکومت کی نظر ميں روشن خیالی اور اعتدال پسندی ہے مگر ہماری نظر ميں یہ بے حیائی اور فحاشی ہے۔ یقین مانیں اس طرح کی روشن خیالی اور اعتدال پسندی یورپ میں بھی نہیں ہے۔

حکومت اب بھی اگر پاکستان کیساتھ مخلص ہوجائے تو وہ سب سے پہلے فحاشی اور روشن خیالی میں تفریق پیدا کرے اور پھر روشن خیالی اور اعتدال پسندی کو مثبت طریقے سے لاگو کرکے عام آدمی کا بھلا کرے نہ کہ آنٹي شمیم کو آزاد چھوڑ کر سارے محلے کا جینا دو بھر کردے۔