توقع کے مطابق حکومت نے اپنے انتخابی سال کا بجٹ عوامی بنانے کی کوشش کی ہے جس میں وہ کچھ کچھ کامیاب رہی ہے۔ یعنی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فیصد اضافہ کیا ہے بیشک وہ مہنگائی کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ مزدور کی کم سے کم تنخواہ بھی 4000 روپے سے بڑھا کر 4600 روپے کردی گئ ہے کلیریکل ملازمین کے گریڈ بھی بڑھا دیے گئے ہیں ان کی تنجواہوں میں دوسروں کی نسبت زیادہ اضافہ ہوگا۔۔ اسی طرح ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن میں اضافہ بھی خوش آئند ہے۔

حکومت نے غریبوں پر مہنگائی کا اثر کم کرنے کیلیے ملک میں یوٹیلٹی سٹورز کا جال بچھانے کا فیصلہ کیاہے جہاں خوردونوش کی اشیا بیس پچیس فیصد سستی ملا کریں گی۔ اس کے علاوہ کئی اہم اشیا یعنی دواؤں، کھاد، پرنٹنگ کی اشیا، گھریلو استعمال کے جنریٹر، ہیلتھ انشورنس، سائیکل، سلائی مشین، تارکول وغیرہ پر سے سیلز ٹیکس یا ڈیوٹی یا تو ختم کردی ہے یا کم کردی ہے۔

پلاسٹک، پیپر، آئرن اور سٹیل پر سیلز ٹیکس پانچ فیصد کم کردیا گیا ہے اس طرح ان مصنوعات کی قیمت کم ہونے کا امکان ہے اگر تاجروں نے سیلز ٹیکس میں دس فیصد کی رعائت کے برابر قیمتوں میں اضافہ نہ کردیا تو۔

ذراعت کو ترقی دینے کیلیے بجلی بیس فیصد سستی کردی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ بجلی کے بحران میں جس کے اگلے سالوں میں بڑھنے کے امکانات زیادہ ہیں کیا کسانوں کو وافر بجلی مہیا ہوسکے گی۔

پراپرٹی کی خریدوفرخت پر ٹیکس کی چھوٹ 2010 تک بڑھا دی گئ ہے جس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ ہاں فوجی پراپرٹی ڈیلروں پر اسے احسان سمجھا جائے گا۔

ملک کو بجلی کے بحران کا زبردست سامنا ہے جس کو کم کرنے کیلیے کوئی خاص سپیشل رقم مختص نہیں کی گئ۔ ہاں آبی ذخائر کیلیے بہت کم رقم مختص کی ہے اور امید ہے اس طرح کم از کم نئے ڈیموں پر کام شروع ہوسکے گا۔

جیساکہ ہم نے پہلے کہا حکومت نے گاڑیاں درآمد کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ڈیوٹی کم کی ہے جب کہ ملکی گاڑیوں پر ٹیکس مزید بڑھا دیا ہے۔

ہمارے بجٹ کا تقریبا پچیس فیصد قرضوں کی ادائیگی میں چلا جائے گا۔ پندرہ فیصد سے زیادہ دفاع پر خرچ ہوجائے گا اور اس کے بعد جو بچے گا اس میں سے زیادہ تر غیرترقیاتی کاموں پر خرچ ہوگا۔

 تعلیم پر 1٫28 فیصد اور صحت پر زیرو فیصد سے کچھ زیادہ رقم مختص کی گئ ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری حکومت کیلیے یہ شعبے کتنے اہمیت رکھتے ہیں۔ 

 تجزیہ نگاروں کی اکثریت اس بجٹ سے عام لوگوں کی زندگی میں کسی تبدیلی کی امید نہیں رکھتی۔ ان کے مطابق تنخواہوں میں اضافہ صرف پندرہ فیصد ہوا ہے جبکہ مہنگائی کئ سو فیصد بڑھی ہے۔

ٹیکسوں کی وصولی کا حدف آج تک حاصل نہیں کیا جا سکا اور امید نہیں ہے کہ اگلے سال بھی حکومت ٹیکسوں کی وصولی میں اضافہ کرسکے گی۔ ٹیکسوں کا حدف حاصل کرنے کیلے بڑے بڑے ٹٰیکس چوروں کو پکڑنا ضروری ہے مگر حکومت اپنے حامیوں پر پہلے کی طرح اب بھی  ہاتھ ڈالنے سے گریز کرے گی۔  اس طرح چار کھرب کا خسارہ سال کے آخر میں دگنا تگنا ہوجائے گا۔