مسلمانوں کی تاریخ میں بہت گنے چنے نام ایسے ہیں جنہوں نے حکمران وقت کے آگے سر نہ جھکایا ہو۔ وگرنہ ہمارے علمائے دین کی اکثریت درباری علما کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ آج کے دور میں بھی ایسا ہی ہے، ادھر حکمرانوں نے اشارہ کیا ادھر ہمارے عالم دم دباتے دربار میں حاضر ہو گئے۔ بارہ ربیع الاول پر منعقد ہونے والی سیرت النبی کانفرنسوں کی تازہ مثال ہمارے سامنے ہے۔ علمائے دین لاہور میں وزیراعلی شہباز شریف کی بے تقی باتیں اور اسلام آباد میں وزیراعظم پرویز اشرف کی بے عمل باتیں سن چکے ہیں۔ دیکھا جائے تو اس وقت یہ صوبائی اور وفاقی حکمران دونوں ہی بے عمل مسلمان ہیں۔ راجہ پرویز اشرف کو تو سپریم کورٹ نے پاورپلانٹ رینٹل کیس میں گرفتاری کا حکم دے رکھا ہے۔ اسی کیس کی مناسبت سے ان کا نام راجہ رینٹل پڑا ہوا ہے۔ دونوں نہ پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں اور نہ مساوات کے معیار پر پورتے اترتے ہیں۔
ہمارے حکمران جو اسلام پر کوئی اتھارٹی نہیں رکھتے وہ سیرت النبی پر لیکچر دیتے ہیں اور سننے والے واہ واہ کر رہے ہوتے ہیں اور تالیاں بجا کر داد بھی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری موجودہ نسل کی اکثریت بے عمل ہے اوردوغلے پن کا شکار ہے۔ جو ہم لوگ کرتے ہیں وہ مسلمانی نہیں ہے اور جو نہیں کرتے ہمارا دین اس کا تقاضا کرتا ہے۔ جب تک ہم اپنا کردار ٹھیک نہیں کریں گے ہمارے حکمران بھی جاہل ہی ہوں گے اور وہ ہمیں مزید ڈبوتے رہیں گے۔