بقول عمران خان، زرداری نے پی پی پی کا وہ حشر کیا ہے جو جنرل ضیا بھی نہیں کر سکا تھا۔ اس لیے موجودہ انتخابات کی دوڑ سے پی پی پی یعنی زرداری کو تو باہر ہی تصور کیا جائے۔ لیکن اس کے باوجود پی پی پی کچھ سیٹیں نکال ہی لے گی۔
نواز شریف کی جیت کی ہوا ہر طرف چل پڑی ہے اور لگتا ہے فوج اور بیوروکریسی نے بھی نواز شریف کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
مگر اگر کوئی ہم سے پوچھے تو اس دفعہ حکومت بنانے کا حق عمران خان کو ملنا چاہیے کیونکہ عمران خان ایک تو آزمائے ہوئے نہیں ہیں، دوسرے انہوں نے حکومت سے کرپشن ختم کرنے اور بلدیاتی نظام بحال کرنے کے وعدے کر رکھے ہیں۔ سابقہ حکومتوں کے ریکارڈز سے دیکھا جائے تو لگتا نہیں کہ عمران خان کوئی بڑی تبدیلی لا سکیں مگر ان سے ہی یہ امید کی جا سکتی ہے نواز شریف سے نہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن کی سابقہ پنجاب حکومت نے اپنے دور میں کوئی انقلابی اقدامات نہیں کئے سوائے رشوت کے طور پر نوجوانوں کو لیپ ٹاپ اور سولر انرجی پینل دینےاور سستی روٹی کی عارضی سکیم کے۔ شہباز شریف نے جو بھی کام کیے وہ لاہور کی حد تک کئے۔ نہ وہ بلدیاتی نظام بچا سکے، نہ انہوں نے تھانے اور پٹوار کا نظام درست کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مسلم لیگ ن کو انقلابی جماعت نہیں مانتے اور عمران خان کی جیت کے خواہاں ہیں۔
یعنی اس دور میں سب برے لوگوں میں سے اگر کسی کم برے کا انتخاب کرنے کا ہمیں کہا جائے تو ہماری نظر انتخاب عمران خان پر ہی جا کر رکے گی۔ باقی آگے اللہ جانتا ہے کہ عمران خان کے اندر کیا ہے۔
10 users commented in " عمران خان، نواز شریف یا زرداری "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackعمران خان کی خوبی اسکی دیانت داری ہے ۔ نواز شریف کا زہن لوگوں میں قرضے اور چیزیں دینے سے زیادہ نہیں سوچ سکتا۔ وہ عوام کو بھکاری بنانا جانتے ہیں۔
میرا خیال نہیں کہ پیپلز پارٹی انتخابات سے باہر ہوئی ہے۔ کم از کم سندھ کی حد تک تو ہر گز نہیں جس طرح 1989 میں بھٹو کو بعد از مرگ ووٹ دیا گیا تھا اسی طرح پیپلز پارٹی کو اس دفعہ بینظیر بھٹو کو بعد از مرگ ووٹ ملے گا۔۔۔ لوگ بین کرتے ہوئے آئیں گے اور پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ آپ انکی اشتہاری مہم سے اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
نواز شریف ایک حقیقی لیڈر ہوتا تو اس ملک کی تقدیر سنور سکتی تھی۔
جب تک میں امریکہ میں تھا میڈیا پر پروگرام دیکھ دیکھ کر لگتا یونہی تھا کہ پیپلزپارٹی الیکشن سے باہر ہو گئی ہے ۔لیکن حال ہی میں پاکستان جانا ہوا تو اندازہ ہوا کہ اتنی بھی باہر نہیں جتنا میڈیا دکھا رہا ہے ۔
اور آپ کی دوسری بات سے بھی اختلاف کروں گا، اس وقت سوچ سمجھ کر ووٹ دینے کا موقع ہے، نواز شریف کے دونوں ادوار کا اگر آپ حقائق کے ساتھ جائزہ لیں تو دونوں ہی ادوار میں ترقی ہوئی ہے، ان کے پاس ایک منجھی ہوئی ٹیم ہے جو مشکل حالات میں کام کرنے اور بحران سے ملک کو نکالنے کا تجربہ رکھتی ہے ۔ اور جہاں تک بات کرپشن کی ہے کسی پر الزام لگا دینا آسان ترین کام ہے، نہیں تو پرویز مشرف کو نواز شریف کے خلاف پہلا مقدمہ قائم کرنے میں 28 دن کا وقت لگا تھا اور وہ مقدمہ جہاز کو ہائی جیک کرنے کا تھا، مقدمہ کی رپورٹ جہاز کمپنی کی کسی ملازم نہ ہی جہاز میں سفر کرنے والے کسی مسافر کی طرف سے درج کروایا گیا تھا بلکہ آئی ایس آئی کے ایک اہلکار نے اس کی رپورٹ درج کروائی تھی ۔ اس کے بعد بھی پرویز مشرف کے پورے دور میں نواز شریف پر کرپشن کا ایک بھی مقدمہ نہ بنایا جا سکا ۔ جبکہ ہم جیسے لوگ گھر بیٹھے آسانی کے ساتھ کہتے رہتے ہیں کہ جی انہوں نے کرپشن کی حد کر دی، ملک کو لوٹ کر کھا گئے ۔ الزامات لگانا آسان اور حقائق اور دلائل سے بات کرنا بالکل الگ بات ہے۔ کسی پر کرپشن کے الزامات لگا دینا یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ واقعی کرپٹ ہے۔
آپ عمران خان سے توقع وابستہ کئے ہیں جس نے پچھلے ایک سال میں جو کچھ کہا عملی طور پر اُس کی نفی کی ۔ کس بنیاد پر عمران خان دعوے نیکی کے کر رہا ہے جو ساتھی اُس بنائے ہیں اُن کا ماضی بعیدسےماضی قریب تک سب لوٹ مار سے بھرا ہے ۔ خود عمران خان اتراتا ہے شوکت خانم میموریل ہسپتال بنا کر جو زکات اور لوگوں کے چندوں سے بنا ہے ۔ میاں شریف کے خاندان نے عرصہ دراز قبل اتفاق ہسپتال بنایا اور دہائی سے زیادہ قبل شریف سٹی ہسپتال بنایا ۔ دونوں اپنی کمائی سے
موٹر وے کس نے بنایا ۔ ایٹمی دھماکہ کس نے کیا ۔ لانگ رینج مزائل کس کے دور میں بنے
یہ بات سچ ہے کہ نواز شریف ہو یا زرداری کچرے کے ڈھیر سے زیادہ انکی اوقات نہیں ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ عمران خان بھی کچھہ نہیں کر پائے گا، ان تینوں میں سے کوئی ایک بھی اٹلیکچول لیول کا انسان نہیں ہے، عمران خان ایماندار انسان ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے فلحال، اصل ایماندرای کا تو اقتدار میں آنے کے بعد پتہ چلے گا۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے یہ تینوں ہی بت ہیں اس سے زیادہ انکا لیول نہیں ہے۔
“۔ خود عمران خان اتراتا ہے شوکت خانم میموریل ہسپتال بنا کر جو زکات اور لوگوں کے چندوں سے بنا ہے ۔ میاں شریف کے خاندان نے عرصہ دراز قبل اتفاق ہسپتال بنایا اور دہائی سے زیادہ قبل شریف سٹی ہسپتال بنایا ۔ دونوں اپنی کمائی سے موٹر وے کس نے بنایا ۔ ایٹمی دھماکہ کس نے کیا ۔ لانگ رینج مزائل کس کے دور میں بنے”
سبحان اللہ۔ کیا کہنے۔
عمران خان شریف برادران کی طرح امیر کبیر انسان نہیں۔ کچھ کرنے کا جذبہ ہے اس بندے میں۔ عوام نے بھی کچھ دیکھا تبھی پیسے دیئے عمران کو۔
ایٹمی دھماکے کونسے نواز شریف نے خوشی سے کئے تھے۔ “آپ نے جوابی دھماکے نہ کئے تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گے۔” صحا فی کے یہ الفاظ تو آپ کو یاد ہی ہوں گے۔
ایٹمی دھماکے، موٹروے ، میزائل، یہ سب نوے کی باتیں ہیں۔ پچھلے پانچ سال کا کوئی کارنامہ بتایئں؟
میں جب تبصرہ بھیجتا ہوں تو شو نہیں ہوتا اور نام و ایمیل کا مسئلہ بتا تا ہے اگرچہ میں لکھ دیتا ہوں، کوئی بتا ئے گا کہ کیا وجہ ہے
پاکستانی سیاست دانو پر تو یہ مصرا صادق اتا ہے “ سب ننگے ہیں اس حمام میں“ میں نے اس پر کافی تبصرہ لکھا لیکن یہاں پر ایا نہیں۔ پھیر کبھی۔
میں تو کہوں گا اور ہر جگہ کہتا ہوں کہ کوئی بھی خیر خوا نہیں نہ پاکتان کا اور نہ ہی غربت اور مہنگائی کے مارے عوام کا۔ سب اپنے جیبوں کو بھرنے کے لئے لگے ہوئے ہیں بقول کسے“ عورت کو خیر نہیں نہ مکے میں اور نہ سسرال میں“۔ غریب عوام کا ان میں کوئی بھی پرسان حال نہیں۔ جب تک یہ کوٹے سکے ، جانب دار عادلیہ اور یہ اسٹبلشمنٹ رہے گی کوئی تبدیلی نہیں ائے گی۔ ان سے توقع رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کا مصداق ہے۔
شریف فیملی کا زرہ ماضی دیکھیں پھیر پتہ چل جائے گا( ضیاء دور سے پہلے اور بعد، تا حال)
باقی بھی ایسے ہی ہیں لیکن ہم ہیں کے ماضی کو بہت جلد بھول جاتے ہیں اور ماضی کی بنیاد پر تجزیہ کرنا تو پاکستانی قوم کے لئے شجر ممنوعہ ہے۔اج تک کسی نے بھی عوامی مسائل پر توجہ دی ہے۔مجھے بتائیں کہ کس دور میں عوام کی معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کئےگئے ہیں؟۔سب امریکہ اور اس کے حواریون کے لئے کاسہ لیسی اور نمک حلالی کرتے ائیں ہیں جو ہمارے خیر خوا ہیں اور پاکستان کے لئے کچھ کر سکتے ہیں ان کے ساتھ ہم دشمنی پال رہے ہیں اور جو ائے روز ہمیں دلدل میں دکھل رہے ہیں اور ہمارا خون چوسنا چاہتے ہیں وہ ہمارے دوست بھی ہیں اور ان کے لئے الہ کار کا کردار بھی ادا کیا جا رہا یے۔ ہماری مات ماری قوم تو بس نعروں کے پیچھے بھاگنے کی عادی ہو چکی ہے جس کا نعرہ زیادہ خوش نما لگا وہ ہمارا لیڈر ٹہھرا۔ ہم نہ اگے سوچتے ہیں اور نہ پیچھے موڑ کر دیکھتے ہیں۔ جب گوشوارے بھروانے اور اثاثہ جات ظاہر کرنے کی بات اتی ہے تو ان سے مفلس کوئی نہیں ہو سکتا لیکن الیکشن میں اربوں روپے کے اخراجات کرتے ہیں۔ اور پھیر بھی وہ الیکشن کے لئے اہل مانے جاتے ہیں، کیا یہ کھولا تضاد نہیں؟؟؟
توقع تو خیر کسی سے بھی نہیں رکھنی چاہیے۔ خاص طور پر ان لوگوں سے جو پچھلے پانچ سال اقتدار کا حصہ رہے۔ اگر کچھ بہتر انتخاب اگر ہو سکتا ہے تو وہ عمران خان کا ہے کہ اس کے لہجے میں یقین ہے اور وہ وہ بات کہتا ہے جو عوام کے دل کی آواز ہے۔ سو عمران خان کو برا بھلا کہنے سے پہلے ایک بار موقع دینا ضروری ہے۔
Leave A Reply