وزیراعظم نواز شریف نے کراچی میں آل پارٹیز کانفرنس میں اپنے سنجیدہ رہنے کا راز یہ بتایا کہ جب پاکستان جل رہا ہو تو پھر ان کے چہرے پر مسکراہٹ کیسے آ سکتی ہے۔ ہمارے خیال میں وزیراعظم نے فلسفی بننے کی ناکام کوشش ہے اور بہت ہی بھونڈی حرکت ہے۔ ایسی باتوں سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ مسائل کا حل پریکٹیکل ہونا چاہیے جس کا ثمر عوام تک پہنچے۔
ہم کئی دفعہ کراچی کے سمئلے کا حل لکھ چکے ہیں اور یہاں دوبارہ دہراتے ہیں کہ شاید ارباب اختیار تک ہماری بات پہنچ پائے۔
ایک – تمام لسانی جماعتوں بشمول ایم کیو ایم، اے این پی پر پابندی لگا دی جائے
دو – کراچی کی حد تک مارشل لا لگا کر تمام سیاسی سرگرمیاں معطل کر دی جائیں
تین۔ کراچی کوفوج کے انتہائی نیک اور صالح جنرل کے سپرد کر کے اسے تین ماہ کا ٹارگٹ دیا جائے۔ اس کے پاس صرف دو ہی راستے ہوں، کراچی کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بنا دے یا ناکامی کی صورت میں پھانسی چڑھ جائے۔
چار – کراچی کی پولیس کے تبادلے سارے ملک میں کر دیے جائیں اور موٹروے پولیس کی طرح کے نیک اور صالح آفیسرز کراچی تعینات کیے جائیں۔
پانچ – عدالتی نظام کسی نیک جج کے حوالے کیا جائے اور اس پر صرف دس یا پندرہ نیک لوگ اینٹی کرپشن کے بٹھا دیے جائیں۔
ہمارے تمام حل بغیر کسی نیک اور صالح آدمی کے ناقابل عمل ہیں۔ اس لیے تان یہیں پر ٹوٹتی ہے کہ اگر حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں کی نیتیں ٹھیک ہوں تو کراچی ایک ماہ میں روشنیوں کا شہر بن سکتا ہے۔
جب تک حکمرانوں کی نیت میں فطور رہے گا اور خودغرضی کو وہ نہیں چھوڑیں گے کراچی ایسے ہی جلتا رہے گا چاہے جتنی مرضی آل پارٹیز کانفرنسیں بلا لیں اور جتنے مرضی ٹارگٹڈ آپریشن کر لیں۔