دنیا کے مشکل ترین کاموں میں ایک کام خود احتسابی ہے اور ہم میں سے اکثر یا تو اپنا محاسبہ کرنے سے پہلے ہی یہ سوچ رکھتے ہیں کہ ہم سچ پر ہیں یا محاسبےسے گھبراتے ہیں۔ لیکن جن قوموں نے ترقی کی ہے ان کا طریقہ یہ رہا ہے کہ وہ اپنے ہر عمل کا احتساب کرتی رہی ہیں اور ابھی تک کررہی ہیں۔ یہ خود احتسابی صدارتی محلوں سے لے کر عام فیکٹریوں تک ہوتی ہے۔ ہماری صدارتی محلوں تک رسائی نہیں ہے اسلئے ہم یہ نہیں جانتے کہ حکمران کیسے اپنا احتساب کرتے ہیں مگر چونکہ ہم کافی عرصے سے ایک ترقی یافتہ قوم کی فیکٹریوں میں ملازمت کررہے ہیں اسلیے ان کی خود احتسابی کے بارے میں ہم بخوبی آگاہ ہیں۔

 اس خود احتسابی میں سب سے پہلے مسئلے پر بحث کی جاتی ہے اور اس کا حل نکالا جاتا ہے اور اگر یہ حل کامیاب رہے تو دوسری جگہوں پر بھی من و عن لاگو کردیا جاتا ہے۔ اس کا باقاعدہ ایک طریقہ کار ہے۔ اس سارے عمل میں شخصی تنقید سے پرہیز کیا جاتا ہے اور چھوٹے ورکر سے لے کر ڈائریکٹر تک اس عمل میں شامل ہوتا ہے۔ حالانکہ قصور وار کا تعین اس سارے عمل میں نہیں کیا جاتا مگر قصور وار اپنی مرضی سے خود کو ذمہ دار ٹھراتے ہوئے اس عمل سے الگ ہوجاتا ہے۔ اگر معاملہ قومی لیول کا ہو تو پھر انصاف کا محکمہ اس کیس کو کورٹ میں لے کرجاتا ہے اور کورٹ قصور وار شخص کو سزا سناتی ہے۔

چیف جسٹس کی بحالی اور ریفرنس کو غیرقانونی قرار دیے جانے کے بعد یہ اب حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ خود احتسابی کا عمل شروع کرے۔ جو شخص اس سارے فساد کی جڑ بنا اسے خود بخود حکومت سے الگ ہوجانا چاہئے۔ یہ بات توحکمران مانتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی سے غلطی ضرور ہوئی ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ غلطی کرنے والا اکیلا شخص یا محکمہ خود اپنا احتساب کرتا ہے کہ نہیں۔

جس طرح سپریم کورٹ نے میرٹ پر عوامی فیصلہ سنا کر اپنے سابقہ گناہوں کو دھو ڈالا ہے اور ایک تاریخ رقم کی ہے اسی طرح عوام حکومت یعنی اس قضیے کو چھیڑنے والوں سے بھی توقع کرتی ہے کہ وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے لیے خود سزا تجویز کرکے ایک اور تاریخ رقم کردیں۔ اگر آج غلطی کرنے والے اپنے فیصلے پر شرمندہ نہ ہوئے تو پھر ان سے بڑھ کر ڈھیٹ اس دنیا میں کوئی نہ ہوگا۔  سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانےوالے یہ ثابت کردیں گے کہ ان کا نعرہ “سب سے پہلے پاکستان” کی بجائے “سب سے پہلے ہم” تھا اور ہے۔

قوموں کی زندگی میں ایسے مقامات آتے ہیں جہاں اپنی ذات سے بالا تر ہوکر شخصیات فیصلے کرتی ہیں اور اپنے نام ہمیشہ کیلیے تاریخ میں محفوظ کرلیتی ہیں۔ آج وقت ہے کہ حکومتی شخصیات اپنا احتساب خود کریں اور ملک کے بہترین مفاد کیلیے ذاتی قربانی دینے سے بھی گریز نہ کریں۔

ملک میں جاری خود کش حملوں کی اصل وجہ بھی جاننے کیلیے خود احتسابی ضروری ہے اور حکومت کیلیے یہ جاننا ضروری ہے کہ 1947 سے 2002 تک اتنے خود کش حملے پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوئے جتنے 2002 کے بعد ہوئے ہیں۔ یعنی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہے جس کا جاننا ضروری ہے۔ حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ طاقت سارے مسائل کا اگر حل ہوتی تو دنیا میں جمہوریتیں نہ ہوتیں صرف مارشل ہوتے۔ فرد واحد کی حکمرانی آقاؤں کے مقاصد تو پورے کرسکتی ہے مگر قوم کے نہیں۔ اسلیے اب وقت آگیا ہے کہ ملک سے فرد واحد کی حکمرانی ختم کرتے ہوئے جمہوریت بحال کردی جائے۔ اس مشکل کام کیلیے خود احتسابی ضروری ہے مگر چونکہ یہ کام دنیا کا مشکل ترین کام ہے اسلیے اس کی انجام دہی کیلیے آدمی کا بہادر ہونا اولین شرط ہے۔