ڈکٹیٹروں کی حکومتوں نے چند گندی روایات چھوڑی ہوئی ہیں ان میں سے ایک صدارتی آرڈیننس ہے۔ ڈکٹیٹرز چونکہ پارلیمنٹ کو ڈمی کے طور پر استعمال کرتے تھے اور خود صدر ہوتے تھے اسلیے وہ پارلیمنٹ سے آئین کی منظوری کی بجائے خود سے آرڈیننس جاری کر کے نیا قانون لاگو کر دیا کرتے تھے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری جمہوری حکومتوں نے بھی صدارتی آرڈیننس کی روایت کو ناں صرف جاری رکھا ہے بلکہ اس حق کو بیدردی سے استعمال کیا ہے۔ قانون یہ کہتا ہے کہ جب پارلیمنٹ کا اجلاس نہ ہو رہا ہو تو ایمرجینسی میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قانون بنایا جا سکتا ہے۔ مگر ہماری جمہوری حکومتیں اس سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھاتی رہی ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ جمہوری حکومتیں نئے قانون کو پارلیمنٹ سے کیوں منظور نہیں کراتیں۔
یہی کچھ دو دن پہلے مسلم لیگ ن کی حکومت نے کیا ہے۔ انہوں نے انسداد دہشگردی ترمیمی آرڈیننس جاری کیا ہے۔ یہ قانون چونکہ براہ راست عوام کے حقوق کے متعلق ہے تو اسے لازمی طور پر پارلیمنٹ سے منظور ہونا چاہیے تھا۔ مگر نہیں، ہماری جمہوری حکومت اپنے ڈمی صدر سے کوئی اور کام لے نہ لے اس سے صدارتی آرڈیننس کا گناہ کبیرہ ضرور کرا رہی ہے۔ خدارا اگر جمہوری حکومت ہے تو اسے جمہوری ہی رہنے دیجیے ڈکٹیٹرشپ نہ بنایئے۔
No user commented in " صدارتی آرڈیننس اور جمہوریت "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply