اخباري اطلاعات ہيں کہ ايک مسودہ قانون صدر کے پاس پڑا ہے جس کے منظور ہونے پر ايک سال سے زيادہ وزيرِاعظم رہنے والے سابق وزير اعظم کو وہ ساري مراعات خاصل ہوں گي جو موجودہ وزيرِاعظم کو ہوتي ہيں۔ يعني کہ سابق وزيرِاعظم اور اس کے اہلِ خانہ کو ڈپلوميٹ پاسپورٹ جاري ہوں گے۔ ان کا علاج مفت ہو گا۔ ان کو سرکاري رہائش ملے گي يا گھر کا کرايہ جو ساٹھ ہزار سے زيادہ بنتا ہے وہ ملے گا۔ ان کو پتہ نہيں کتنے يونٹ بجلي مفت ملے گي اور ٹيليفون کي سھولت بھي ہوگي۔ اس کے ستھ ساتھ ان کو ايک گريڈ سترہ يا اٹھارہ کا سيکريٹري ملے گا اور نوکر چاکر اس کے علاوہ ہوں گے۔
يہ سب اس وزيرِاعظم کے دور ميں ہونے جارہا ہے جو مغرب کا تعليم يافتہ ہے اور جس کو پتہ ہے کہ مغرب ميں موجودہ صدور اور وزيرِاعظموں کو بھي يہ سہولتيں ميسّر نہيں ہوتيں۔ موجودہ وزيرِاعظم ماہرِ معاشيات بھي ہيں اور ان کو معلوم ہے کہ ہمارا ملک اس طرح کي عيّاشي کا متحمل نہيں ہو سکتا۔ پھر بھي وہ سب کچھ کرنے جارہے ہيں جس کا الزام اس سے پہلے وہ اپنے مخالفين پر لگا چکے ہيں۔
وزيرِاعظم اگر اس کي بجاۓ يہي رقم غريبوں کي تعليم پر لگا ديں يا اس رقم سے غريبوں کيلۓ روزگار مہيّا کر ديں تو ان کي بہت بڑي سخاوت ہو گي۔ مگر ہمارے ہاں تو حکومتي لوگوں کو غريبوں کي پرواہ ہي نہيں ہے۔ اور بات وہي ہے کہ ان کو اللہ کا ڈر ہي نہيں ہے کيونکہ ان کا آخرت پر ايمان ہي نہيں ہے وگرنہ اس طرح کي حرکت پر ان کي راتوں کي نينديں حرام ہو جاتيں۔ مگر ان کو ياد رکھنا چاہۓ کہ اب اس دور ميں کوئي بھي چيز بعيد نہيں ہے۔ اگر سابق وزيرِاعظم جو خود بھي امريکہ کا دم بھرتے تھے جان نہ بچا سکے تو آپ کس کھيت کي مولي ہيں۔ بات وہي ہےکہ چاہے اب امريکہ کے بعد اسرائيل کے آگے بھي ليٹ جاؤ مگر وہ تمہيں آفاتِ خداوندي سے نہيں بچا سکيں گے۔ اب مزيد آپ کے پاس دس نہيں تو پندرہ سال اور ہوں گے اس کے بعد تو مٹي ميں ہي ملنا ہے تو کيوں نہ ہم شرم کريں اور خلقِ خدا کے ہي کام آ جائيں۔