جب سے چیف جسٹس افتخار چوہدری وکلاء اور عوام کی تحریک کے نتیجے میں بحال ہوئے ہیں حکومتی کارندوں کی عدالتوں میں دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔ ان کی یہ دوڑیں کسی فلم کا ٹوٹا لگتی ہیں جس ميں مظلوم ظالم کا پیچھا کرتا نظر آتا ہے۔

اس سے پہلے غنڈہ راج، مولاجٹ، مولا جٹ تے نوری نت، اچھو بدمعاش، سلطانہ ڈاکو جیسی فلموں نے ڈاکوؤں اور بدمعاشوں کوجس طرح غریب عوام کا نجات دہندہ دکھایا اسی طرح اب حقیقی فلم میں جج راج کے ذریعے میڈیا ججوں کو غریبوں کا ہیرو بنا کر پیش کر رہا ہے جنہوں نے معاشرے سے ناانصافی ختم کرنے کیلیے کالے کوٹ پہن رکھے ہیں۔

اس فلم کے کئی سارے سین ایک ساتھ مختلف جگہوں پر فلمائے جارہے ہیں۔ کسی جگہ پر جج عوام کے لاپتہ رشتہ داروں کو بازیاب کرانے کی کوشش کررہے ہیں اور کرنل، ایس پی، ڈی جی تک کو عدالتوں میں گھسیٹ رہے ہیں۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا جارہا ہے اور خطرہ ہے کہ اگر حکومت لال مسجد کے سانحے کی طرح ایک دفعہ پھرجوش میں آگئی تو وہ سپریم کورٹ کو بھی نہ آگ لگا دے۔ خدا کا شکر ہے کہ ابھی تک جنرل مشرف کے مشیروں نے سپریم کورٹ کا گھیراؤ کرنے کے مشورے دینے شروع نہیں کئے۔

ایک جگہ پر 12 مئی کے کراچی کے فسادات کی وجہ معلوم کرنے کی شوٹنگ ہورہی ہے جس میں وزیراعلٰی تک کو اپنا حلفی بیان داخل کرنے کا حکمت دیا گیا ہے۔ ایک محکمے سے کنٹینرز کی نقل وحرکت کی رپورٹ مانگی گئی ہے جن سے ناکہ بندی کرکے نہتے عوام کا قتل عام کیا گیا۔ جج صاحبان چاہتے ہیں کہ وہ 12 مئی کے واقعے کے اصل محرکات کا تعین کریں تاکہ اس طرح کا واقعہ دوبارہ نہ ہو۔

ایک سین میں جج صاحبان چینی کے بحران اور نیب کے کیس کو ہینڈل کرنے کے طریقہ کار کی تفتیش کررہے ہیں اور حکومت کے ارکان اسمبلی جو شوگر ملوں کے مالک ہیں کی رات کی نیندیں اڑا دی ہیں۔

لاہور کے ایک سٹوڈیو میں ناجائز تجاوزات کو گرانے کی شوٹنگ ہورہی ہے جس میں جج صاحبان نے ایل ڈي اے کی خوب کھچائی کی ہے اور انہیں رشوت لے کر غیرقانونی این او سی جاری کرنے پر لعن طعن کی ہے۔

کراچی کے ٹریفک جام اور بجلی کے بحران کے سین بھی فلمائے جارہے ہیں اور سٹی حکومت ان مناظر میں بے بسی کی تصویر نظر آرہی ہے۔

فلم کے مستقبل میں فلمائے جانے والے مناظر یعنی جنرل مشرف کی وردی کیخلاف قاضی حسین احمد کی درخواست اور میاں برادران کی ملک واپسی کی درخواست کلائمیکس پیدا کردیں گے۔

ابھی تک فلم کے وہ مناظر فلمائے جارہے ہیں جو وقفے سے پہلے دکھائے جائیں گے۔ وقفے کے بعد جب فلم سنجیدہ ہوجائے گی اور جذباتی سین فلمانے کی باری آئے گی تب فلم پروڈیوسر اور ہدایت کار کا اصل امتحان ہوگا۔

فلم کا اختتام جنرل صدر مشرف کے دوبارہ انہی اسمبلیوں سے چناؤ کے مقدے کی کاروائی سے شروع ہوگا جس میں فلم اپنے عروج پر ہوگی۔ اس دوارن سینما ہال پر سناٹا طاری ہوگا اور فلم بین دلوں پر ہاتھ رکھے آنے والے غیریقینی مناظر کا انتظار کررہے ہوں گے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جج صاحبان فلم کے آخر میں ظالم سماج کے ہاتھوں قتل ہوجائیں اور ملک پر ایک بار پھر مارشل لاء نافذ کرکے ملٹری راج کو جاری رکھا جائے۔ اگر فلم کا اس طرح کا اختتام ہوا تویہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ فلمساز اس کہانی کو جاری رکھتے ہوئے ایک اور فلم بنائے گا۔ اگر جج صاحبان جیت گئے اور جنرل مشرف کی شکست دکھائی گئ تو پھر فلم کا اختتام دو طرح کا ہوگا۔ عوامی حکومت بحال ہوجائے گی یا ملک میں دنگا فساد شروع ہوجائے گا اور غیرملکی ایجینٹ جیت جائیں گے۔ اس طرح فلم کا دوسرا حصہ بنانے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔

آئیں ہم سب ملکر فلم کے مکمل ہونے کا انتظار کریں اور دیکھیں کہ بقول جنرل مشرف” فتح سچ کی ہوتی ہے یا جھوٹ کی”۔ انہوں نے چیف جسٹس کے ریفرنس میں ایک دفعہ کہا تھا کہ اگر سچ کے مقابلے میں جھوٹ گیا تو وہ بہت روئیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر سچ کے مقابلے میںجھوٹ جیت گیا تو کیا عوام جنرل مشرف کی طرح صرف رونے پر اکتفا کریں گے یا سچ کو جتوانے کیلیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے۔