سپریم کورٹ میں آج حکومت” نوازشریف بمقابلہ ریاست” کا مقدمہ ہار گئی ہے۔  سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ نوازشریف پاکستان کے شہری ہیں اور انہیں پاکستان واپس آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ جو معاہدے کی کاپی حکومت نے عدالت میں پیش کی وہ ایک انپڑھ آدمی بھی دیکھ کر کہ سکتا ہے کہ یہ معاہدہ نہیں بلکہ یکطرفہ عہد ہے جسے سپریم کورٹ نے بھی ایک عہدنامے سے تعبیر کیا ہے۔

حکومت کی چیف جسٹس کی بحالی کے مقدمہ ہارنے کے بعد یہ دوسری سب سے بڑي سبکی یا ناکامی ہے۔ ان مقدمات میں حکومت کی بری کارکردگی کی وجہ اس  تازہ مثال سے واضح ہوجائے گی۔

وفاق کے دوسرے وکیل راجہ ابراہیم ستی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اٹھائیس مئی انیس سو اٹھانوے سے ملک میں ایمرجنسی لاگو ہے۔ اس پر عدالت نے ابراہیم ستی سے کہا کہ وہ ذرا سوچ کر بیان دیں کیونکہ ان کا یہ بیان انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے دوررس نتائج ہو سکتے ہیں۔

عدالت کے پوچھنے پر اٹارنی جنرل ملک محمد قیوم نے ایمرجنسی سے متعلق بیان کی وضاحت کے لیے بیس منٹ کی مہلت مانگی جس پر عدالت کی کارروائی بیس منٹ کے لیے ملتوی کر دی گئی۔ اپنی عدالت میں واپسی پر اٹانی جنرل نے کہا کہ ملک میں انسانی حقوق بحال ہیں اور کوئی ایمرجنسی نہیں۔

اسی طرح کے جاہل وکیلوں کی وجہ سے حکومت مقدمے پہ مقدمہ ہار رہی ہے۔ خدا کےبندو تم سپریم کورٹ میں حاضری دینے جارہے ہو وہ بھی ملک کے ایک اہم مقدمے میں اور تمہاری تیاری کا یہ حال ہے۔ ایک وکیل کو اتنا پتہ نہیں ہے کہ ملک میں ایمرجنسی نافذ ہے کہ نہیں اور پھر انہوں نے عدالت میں آنے سے پہلے اتنا بھی صلاح مشورہ نہیں کیا کہ کونسی بات کہنی ہے اور کونسی نہیں۔

جس حکومت کا اس طرح کا اٹارنی جنرل ہو وہ حکومت مزید مقدمات ہارے گی۔ ملک قیوم صاحب جیسا آدمی ایک کامیاب جج بن سکتا ہے وکیل نہیں کیونکہ جج کی کارکردگی کا کوئی آڈٹ نہیں ہوتا جبکہ وکیل کا عدالت میں ایک ایک لفظ آڈٹ ہوتا ہے۔ ملک صاحب نے نواز شریف دور میں ان کے خاندانی جج کی شہرت پائی اور اب آخری عمر میں آمریت کی وکالت کا لیبل لگوا کر اپنی شہرت داؤ پر لگا دی ہے۔

حکومتی وکلاء کی سب سے بڑی کمزوری ان میں ٹیم سپرٹ کا فقدان تھا۔ ہرکسی نے پاکستانی ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں کی طرح انفرادی کھیل پیش کرنے کی کوشش کی اور ایک دو ڈربلنگ کے بعد جب سانس پھول گئی تو پھر تھک کر بیٹھ گئے۔ جاہلو عدالت میں آنے سے پہلے ملکر لائحہ عمل طے کیا کرو تاکہ جج صاحبان کے سامنے جو تمہیں شرمندگیاں اٹھانی پڑتی ہیں ان سے بچ سکو۔ ابھی کل کی بات ہے چیف جسٹس کی بحالی کے کیس میں حکومتی وکلاء ججوں کے خلاف بیہودہ مواد پیش کرنے کے بعد اسے واپس لینے کی شرمندگی سے دوچار ہوچکے ہیں اور وفاق کو ایک لاکھ روپے کا جرمانہ بھی کراچکے ہیں۔  اسی طرح لاپتہ افراد کے مقدمے میں بھی حکومت کے بڑے بڑے افسر حکومت کو ذلیل کراچکے ہیں۔ ریٹائرڈ افسر اب تک خود کو آل ان آل سمجھتے ہیں اور اسی زعم میں ہیں کہ وہ ججوں کے آگے جوابدہ نہیں ہیں مگر وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ آج کی عدالت عوامی حمایت سے آزاد ہوئی ہے اور اسے زچ کرنا آسان نہیں رہا۔

حکومتی وکلاء بھی شاید سمجھتے ہیں کہ اگر جنرل پرویز مشرف انفرادی اننگز کامیابی سے کھیل سکتے ہیں تو پھر ان کے چیلے کیوں نہیں۔ لیکن چیلے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جنرل مشرف ڈکٹیٹر ہیں جو جب چاہیں آرڈیننس جاری کرکے قانون بدل سکتے ہیں۔ ان مقدمات میں سبکی سے تو بہتر ہوتا کہ جنرل مشرف ایک اور آرڈیننس جاری کرکے نواز شریف کی واپسی کو غیرقانونی قرار دے دیتے۔ مگر اب وقت ان کے ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے اور ان کے آرڈیننس بھی شاید آزاد عدلیہ کے فیصلوں اورعوامی غیض و غضب کے سیلاب کے آگے بند نہ باندھ سکیں۔

امید ہے ہمارے بلاگر شعیب صفدر جو خود بھی وکیل ہیں ان سبکیوں سے بہت کچھ سیکھ رہے ہوں گے اور ان سے بچنے کی تدابیر اکٹھی کررہے ہوں گے۔ ہمیں تو ان سے ان مقدمات پر بھرپور قانونی تبصروں کا انتظار تھا مگر پتہ نہیں کیوں انہوں نے اب تک اپنے خیالات کو اپنے دل میں ہی چھپا کر رکھا ہوا ہے۔