ایک امریکی کنسلٹننٹ، مقرر اور ٹرینر بیری ماہر نے اپنے تجربے کی بنیاد پر ناقص مینجر کی سات عادتیں گنوائی ہیں۔ اگر ہم ان عادتوں کو پڑھنے کے بعد کسی پاکستانی شخصیت کے بارے میں اندازہ لگانا شروع کردیں تو ہمارے ذہن میں فوراً ہمارے ملک کے حکمران آئیں گے اور حکمران بھی وہ جو ڈکٹیٹر ہوں۔

1. وہ سوچ بچار کیلیے دوسرے لوگوں پر تکیہ کرتے ہیں اور دوسروں کے ذہن میں جو بھی خیال اس وقت ظہور پذیر ہو وہ اسی پر یقین کرلیں گے۔

2. یہ کچھ معنی نہیں رکھتا کہ وہ کتنا بھی کھرے ماحول، مہارت اور نئی سوچ کے متعلق اظہار خیال کریں، وہ دقیانوسی اور طابعداری پر اصرار کریں گے۔

3۔ ایک نکمے سیاستدان کی طرح وہ اپنی لیڈری کی خصوصیات بیان کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔ ان کے ذہن میں یہی ہوگا کہ اگر وہ متواتر اپنے لیڈر ہونے پر اصرار کرتے رہیں گے توکچھ لوگ ان کو بڑا لیڈر مان لیں گے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ حقیقی لیڈرشپ کا مطلب ہے کہ کبھی بھی دوسروں کو نہ بتائیں کہ آپ لیڈر ہیں۔

4. وہ اپنی بیکار تاویلوں پر یقین رکھیں گے اور انہی کو آزمانے کی کوشش کریں گے۔   

5. وہ چڑھتے سورج کا کریڈٹ بھی لے لیں گے اگر انہیں یقین ہو وہ دوسروں کو یقین کرنے پر آمادہ کرلیں گے۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ ان کے لوگ جو بھی اپنی محنت سے حاصل کرتے ہیں وہ انہی کی وجہ سے ہے لیکن دوری طرف ناکامیاں، غلطیاں اور مسائل کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھرائیں گے۔

6. انہیں یقین ہوتا ہے کہ ان کو کامیابی ان کی برتری کی وجہ سے ملی ہے اور خدا نے انہیں اسی خصوصیت کی بنا پر لیڈر بنایا ہے۔

7. اس کے باوجود کہ وہ اپنی کامیابیاں اپنے کھاتے میں ڈالتے ہیں،  وہ اپنی ناکامیوں کو خدا کی رضا میں شامل کرلیتے ہیں۔ وہ اپنی ناکامیوں کو کسی بھی قیمت پر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اگرچہ یہ قیمت دوسروں کی قربانی کی مرہون منت ہوتی ہے۔