اٹھارہ اکتوبر کو بینظیر کا شاندار استقبال جاری تھا کہ گیارہ گھنٹے بعد آدھی رات کو اچانک دو بم دھماکے ہوئے اور استقبال کی خوشیاں سوگ میں بدل گئیں۔

اب ڈیڑھ سو غریبوں کے مرنے اور پانچ سو کے ذخمی ہونے پر امراء اپنی سیاست چمکائیں گے اور نوٹ بنانے کی مشین یعنی اقتدار حاصل کرنے کی تگ و دو جاری رکھیں گے۔ چولہے ان بیچاروں کے بجھ گئے جن کے جوان بیٹے امراء کی جنگ کا ایندھن بن گئے۔ حکومت ہر مرنے والے کو ایک سے پانچ لاکھ کا معاوضہ دے کر فارغ ہوجائے گی اور یہ تک نہیں سوچے گی کہ اس رقم سے تو صرف کفن دفن کا بندوبست ہی ہوسکے گا۔ نہ کوئی مرنے والوں کے گھر والوں کی نہ ختم ہونے والی پریشانیوں کا سوچے گا اور نہ کوئی ان کا مداوا کرے گا۔

اسی امیر غریب کی تفریق کو سامنے رکھتےہوئے ہم بینظیر پر خود کش یا دہشتگردی کے حملے کے محرکات کا جائزہ لیتے ہیں۔

“1”. اس حملے سے براہ راست فائدہ جنرل مشرف اور ان کے حواری چوہدریوں کو پہنچ سکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ ان دھماکوں کی آڑ میں وہ انتخابات ملتوی کرکے اپنے اقتدار کو طوالت دے سکتےہیں۔ تو اس بنا پر کچھ لوگ کہ سکتے ہیں کہ کیا ان دھماکوں کے پیچھے حکومت کا ہاتھ تھا؟ جیسا کہ بی بی نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ خودکش حملہ حکومت میں شامل کچھ لوگوں کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا لیکن بی بی نے ان لوگوں کے نام نہیں بتائے۔

“2”. ایم کیو ایم جن ایجینسیوں کا واویلا مچاتی رہتی ہے وہ بھی ان دھماکوں سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ ایجینسیاں ان دھماکوں کی وجہ سے یہ باور کراسکتی ہیں کہ ملک میں الیکشن کے حالات سازگار نہیں ہیں اور پاکستان ابھی مکمل جمہوریت کے قابل نہیں ہے۔ اسلیے ملک پر سیمی مارشل لاء برقرار رکھا جائے۔ اگر موجودہ سیمی مارشل لاء حکومت کے سربراہ کا امیچ عوام میں ختم ہوچکا ہے تو اس کی جگہ پر نیا چہرہ متعارف کرادیا جائے۔ تو کیا ان ایجینسیوں کا دھماکوں میں ہاتھ تھا؟

“3”. مسلم لیگ ق کو ان دھماکوں سے یہ فائدہ ہوسکتا ہے کہ اس طرح بڑے بڑے جلسے جلوس نہیں ہوں گے اور ان کی مقبولیت کا بھرم قائم رہے گا۔ اگلے انتخابات میں وہ اس طرح سرکاری مشینری کو استعمال کرکے دوبارہ اقتدار حاصل کرسکتی ہے۔ کیا مسلم لیگ ق کی یہ سازش تھی؟

“4”. شمالی وزیرستان میں جاری دہشت گردی کیخلاف جنگ کےمتاثرین بہت سارے تجزیہ نگاروں کی نظروں میں خود کش بمبار بن چکےہیں اور وہ اپنے رشتہ داروں کی موت کا بدلہ لینے کیلیےجانیں تک قربان کرنے کو تیار ہیں۔ ہوسکتا ہے  بینظیر کے پچھلے کئی ہفتوں کے بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہو اور جنگ کےمتاثرین میں سے کسی نے ان کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہو۔ اگر یہ صورتحال ہے تو پھر بینظیر کو آنے والے وقت میں بھی محتاط رہنا پڑے گا۔ کیونکہ اگر وہ آج بچ گئی ہیں تو کل دہشت گرد ان پر دوبارہ حملہ کرسکتے ہیں۔ کیا دہشت گردوں نے یہ حملے کیے؟

“5”۔ اس دہشتگردی کا فائدہ غیرملکی طاقتوں کوبھی ہوسکتا ہے جو چاہتی ہیں کہ پاکستان میں کبھی استحکام پیدا نہ ہو اور پاکستان کی فوج ایک ایسے علاقے میں برسرپیکار رہے جہاں کبھی کسی کو فتح نصیب نہیں ہوئی۔ اس طرح حملے اور جوابی حملے ہوتے رہیں اور ایک دن پاکستان ملک میں استحکام کے بدلے اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے پر تیار ہوجائے۔ کیا بیرونی طاقتوں نے تو کہیں ان دھماکوں کا پلان تیار نہیں کیا تھا؟

اب ان دھماکوں کے اسباب کی تحقیقات کرنا ہماری حکومت کا کام ہے اور یہ تحقیق تبھی ملک کے حق میں ہوگی جب غیرجانبداری سے کی جائے گی جس کا امکان کم ہے۔

 ابھی یہ بھی دیکھنا ہے کہ ان دھماکوں کی پی پی پی ایف آئی آر کس کے خلاف درج کراتی ہے۔  پی پی پی اور حکومت کے درمیان موجودہ قومی مفاہمت کو اگر دیکھا جائے تو پی پی پی حکومت کیخلاف ایف آئی آر نہیں کٹوائے گی اور غیرملکی آقاؤں کو خوش کرنے کیلیے ہوسکتا ہے خود کش بمباروں یا دہشت گردوں کو مشترکہ طور پر نامزد کردے۔ اس دلیل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بینظیر کے موجودہ استقبال میں “گو مشرف گو” کے نعرے نہیں لگوائے گئے۔

اطمینان سے بیٹھیں غریبوں کے مرنے پر نہ کوئی اپنے عہدے سے مستعفی ہوگا اور نہ کوئی وزارت سے استعفٰی دے گا۔ بلکہ آئی جی سندھ ضیاالحسن کے بقول ایجینسیوں نے پولیس کے بیس جوانوں کو قربان کرکے بینظیر کی جان بچائی اور وہ اسے کامیاب سکیورٹی پلاننگ قرار دے رہے ہیں۔

کسی نے بی بی سی پر بی بی سے بڑے پتے کا سوال کیا ہے۔ وہ پوچھتا ہے کہ بی بی نے حکومت سے اپنی حفاظت کی ضمانت تو لے لی مگر ان غریبوں کی ضمانت کیوں نہیں لی جو اس کے استقبال کیلیے آئے تھے۔ اس کاجواب ہم شروع میں دے چکے ہیں کہ امراء اپنے مفاد کیلیے دوچار سو غرباء کی قربانی کو ایک معمولی بات سمجھتے ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔