جنگ کے کالم نگار غضنفر علی نے ایک سچا واقع اپنے کالم میں لکھا ہے۔ وہ ریکارڈ کیلے یہاں درج کررہے ہیں۔

 مختار صاحب  بولے۔ ” یہ ان دنوں کی بات ہے جب غلام اسحاق خان ملک کے صدر تھے۔ میں اس وقت انکم ٹیکس کے محکمے میں صوبائی سربراہ کے طور پر پشاور میں فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ دوران ملازمت قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل کرنے والے افسر کے طور پر مشہور تھا۔ ایک دن مجھے کوہاٹ سے ایک درخواست موصول ہوئی کہ فلاں انسپکٹر روزانہ شام کو دکانداروں سے پیسے وصول کرتا ہے اور اگر کوئی نہ دے تو اسے بھاری انکم ٹیکس ادا کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے۔ اس درخواست پر تمام دکانداروں اور تاجروں کے دستخط تھے۔ میں نے درخواست پڑھنے کے بعد فیصلہ کر لیا کہ اگر یہ بات درست ہے تو اس کو قرار واقعی سزا دوں گا۔ میں نے اس کی ذاتی فائل منگوا کر پڑھی تو پتہ چلا کہ وہ ایک دفعہ پہلے فوج کی ملازمت سے نکالا گیا تھا اس فائل میں باقی سب کچھ تھا لیکن ڈگری نہیں تھی۔ ہم نے اسے ڈگری ایک ہفتے کے اندر پیش کرنے کو کہا۔ اس نے اپنا رزلٹ کارڈ پیش کر دیا اور لکھا کہ جلد ہی وہ یونیورسٹی سے سند حاصل کر کے پیش کر دے گا۔ میں نے اس کا رزلٹ کارڈ گومل یونیورسٹی میں تصدیق کیلئے بھجوا دیا۔ گومل یونیورسٹی نے جواب میں لکھا کہ یہ رزلٹ کارڈ جعلی ہے۔ میں نے اس بنیاد پر اس کا کیس بنایا اور نوکری سے ڈسمس کرنے کے احکامات کی سفارش کے ساتھ ہیڈ کوارٹر اسلام آباد بھجوا دیا“۔ ”پھر کیا ہوا؟“ میں نے اپنا موبائل آف کیا اور مختار صاحب کے چہرے پر اپنی آنکھیں گاڑ دیں۔ ”جس وقت میں اس کا کیس تیار کر رہا تھا پتہ ہے مجھے کس کس کی سفارش آئی۔“ مختار صاحب ذرا دھیمے لہجے میں بولے۔ ”گورنر سرحد، وزیر اعلیٰ، دو وزراء اور میرے جاننے والے سبھی افسران، شاعروں اور ادیبوں کی۔ لیکن میں تہیہ کئے بیٹھا تھا کہ اسے سزا ضرور دینی ہے لیکن کیس ہیڈ کوارٹر میں چیئرمین کے پاس تھا کچھ عرصے کے بعد مجھے ایک میٹنگ کے سلسلے میں اسلام آباد جانا پڑا۔ میٹنگ کے اختتام پر ہم سب چیئرمین سے اجازت طلب کرنے لگے تو چیئرمین نے مجھے روک لیا کہ مجھ سے ضروری بات کرنی ہے۔ جب باقی لوگ چلے گئے تو چیئرمین نے کہا ”مختار صاحب! مجھے علم ہے کہ قواعد و ضوابط کے معاملے میں آپ خاصے سخت واقع ہوئے ہیں اور میں اس کی قدر بھی کرتا ہوں لیکن اگر آپ اجازت دیں تو ایک کام کر لوں؟ میں نے کہا جناب باس ہیں آپ کو اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ جس انسپکٹر کو آپ نے ڈسمس کرنے کی سفارش کی ہے میں اسے ڈسمس نہیں کر سکتا بلکہ اسے ہلکی سزا دے کر واپس بھجوا رہا ہوں۔ میں نے پوچھا آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں تو اس نے بتایا کہ اس کے لئے صدر غلام اسحاق خان نے سفارش کی ہے۔ سو چیئرمین نے صدر کی سفارش پر آرڈر بدل دیئے اور اس انسپکٹر کا کوئی بال بھی بیکانہ نہ کر سکا۔