ہم سب کو اب بھی یاد ہوگا جب بھٹو دور میں لوگ محنت مزدوری کیلیے یو اے ای جانے لگے اور پاکستان کے ہر گاؤں میں بھی خوشحالی کا دور آیا۔ جب وہ چھٹي گزارنے پاکستان آتے تو ان کا سارا خاندان ان کے استقبال کیلیے ایئرپورٹ پہنچا ہوتا تھا۔ لوگوں نے جی بھر کر مال کمایا اور اپنے گھر ٹی وی، فریج، کیمرے، ٹیپ ریکارڈرز اور اسی طرح کی الیکڑونکس سے بھر دیے۔ مگر ان ضروریات زندگی کی سہولیات کیساتھ سااتھ مردوں کی گھر سے دوری بہت ساری قباہتیں بھی ساتھ لائی۔ کسی کے بچے خراب ہوگئے، کسی کی بیوی اپنے آشنا کیساتھ بھاگ گئی، کسی کے بھائی اس کی جمع پونجی پر ہاتھ صاف کرگئے اور کسی کے دوستوں نے اسے دیوالیہ کردیا۔

ناصر حسن شاہ نے کیا خوب کہا ہے،

گھروں سے دوریاں اچھی نہیں ہوتیں ناصر

پرندے چھوڑ جائیں تو گھروندے ٹوٹ جاتے ہیں

سب سے زیادہ نقصان بچوں کو ہوا جو صرف اکیلی ماں کے قابو میں نہ  رہ سکے اور آوارہ گردی ميں پڑ گئے۔ کچھ تعلیم ادھوری چھوڑ کر والد کے نقشِ قدم پرچلتے ہوئے دبئی جانے کے چکروں میں پڑ گئے۔ وہ ماں باپ خوش قسمت رہے جن کے بچے ذاتی دلچسپی کی وجہ سے اپنی عملی زندگی میں کامیاب ہوئے۔

ہم نے خود ان بچوں کیساتھ اپنا بچپن گزارا ہے اور اس نسل کی تباہی اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ اس نئی نسل نے بھی اپنے آباؤاجداد کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا اور گھر سے غیرحاضری کے نقصانات سے آنکھیں چرائے بیٹھی ہے۔

ہمارے ایک عزیز کا بیٹا یو اے ای میں ہوتا ہے۔ اس کی پچھلے سال شادی ہوئی اور وہ دو ماہ گھر رہ کر واپس چلا گیا۔ کویت سے اسے عراق بھیج دیا گیا۔ اس کے پیچھے اس کے ماں باپ کی اپنی بہو کیساتھ ان بن ہوگئی اور وہ روٹھ کر اپنے میکے چلی گئی۔ اب حال یہ ہے کہ ماں باپ بیٹے سے قطع کلامی کرچکے ہیں اور بہو کو بھی واپس لانے سے کتررہے ہیں۔

ایک صاحب یورپ میں ہوتے ہیں ان کا بیٹا جب ہائی سکول میں پہنچا تو اس نے اپنی استانی سے ٹیوشن پڑھنی شروع کردی۔ اس کے استانی کیساتھ ناجائز تعلقات کا جب ماں کو پتہ چلا تو اس نے اسے استانی سے ملنے سے منع کرنا چاہا مگر بیٹا ماں کے سامنے اکڑ گیا۔ وہ دن اور آج کا دن بیٹا باغی ہوچکا ہے۔

دراصل مائیں اگر خود مرد بن کر بچوں کی دیکھ بھال نہیں کریں گی تو بچے باپ کی غير موجودگی کا ناجائز فائدہ اٹھانے لگیں گے۔  جب بچے ایک دفعہ ہاتھ سے نکل جائیں تو انہیں دوبارہ راہ راست پر لانا مشکل ہوجاتا ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ بچوں کے سنورنے اور بگڑنے میں ارد گرد کے ماحول کا بھی اثر ہوتا ہے مگر اس کا برا اثر ماں باپ کی مشترکہ کاوشیں زائل کرسکتی ہیں۔

 کچھ لوگ بچوں کو شروع میں اسلیے ڈھیل دیے رکھتے ہیں کہ وہ ابھی چھوٹے ہیں اور جب بڑے ہوں گے تو سمجھا لیں گے۔ یہ طریقہ بھی اکثر کارگر ثابت نہیں ہوتا کیونکہ بچے کو اگر شروع میں کنٹرول نہیں کریں گے تو وہ بڑا ہوکر کبھی آپ کی بات نہیں مانے گا۔

 بچوں کی بہتر تربیت کیلیے ماں باپ دونوں کا موجود ہونا اسی طرح ضروری ہے جس طرح استاد کا کلاس روم میں۔ بچوں کی تربیت میں نہ باپ اکیلا کامیاب ہوسکتا ہے اور نہ ماں کیونکہ دونوں کے فرائض میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ماں اگر بچے کی گھر کی چاردیواری میں تربیت کرتی  ہے تو باپ اسے باہر کی دنیا سے روشناس کراتا ہے۔ ماں بچے کی پرورش اس کی بلوغت تک کرسکتی ہے اس کے بعد اگر باپ کی رہنمائی حاصل نہ ہو تو بچہ ماں کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے۔

سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ اگر آپ بچوں کو وقت نہیں دے سکتے تو پھر بچے پیدا ہی نہ کریں۔ لیکن اگر غلطی سے پیدا کرلیے ہیں تو پھر ان کی اچھے والدین کی طرح پرورش کریں اور مال بنانے کے چکر میں ان سے لاپرواہی نہ برتیں۔ ہمارے ایک دوست کے بقول اگر ہم بچوں کی تربیت کی بجائے دولت جمع کرنے میں لگے رہیں گے تو بچوں کے بڑے ہونے پر یہی رقم ان کے مقدمات میں لگا دیں گے۔۔ اسلیے بہتر یہی  ہے کہ دولت کمانے کیساتھ ساتھ بچوں کے بہتر مستقبل کا بھی خیال رکھیں۔