زلزلہ کي امداد پاکستان پہنچنا شروع ہو گئي ہے اور ہر ملک نے تقريبأ اپني استعداد کے مطابق امداد کا وعدہ کياہے۔ يہاں تک کہ اسرائيل نے بھي امداد کي پيشکش کي ہے اب پتہ نہيں پاکستاني حکومت قبول کرتي ہے کہ نہيں۔ حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار نے اپنے اپنے حصے کا اعلان کر ديا ہے۔
اصل خدشہ اب اس امداد کے صيحح استعمال کا ہے۔ يہ اب حکومت کي قابليت کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح اس امداد کو مستحقين تک پہنيچاتي ہے اورکس طرح فراڈيوں سے اس کو بچاتي ہے۔ امداد کي اپيل کرنا تو آسان ہے اور اس کا لينا بھي آسان ہے مگر اس کو حقداروں تک پہنچانا اصل کام ہے۔ يہ نہ ہو کہ يہ امداد اصل لوگوں تک پہنيچنے کي بجاۓ ہمارے لالچي ناظموں اور وزيروں کي جيبوں ميں چلي جاۓ۔ ناظم تو ابھي بہت ساري رقم لگا کر ميدان ميں اترے ہيں اور اتنا کچھ خرچ کرنے کے بعد ان کو اگر زکاة کي رقم بھي ہضم کرني پڑي تو يہ ہچکچائيں گے نہيں۔
حکومت کو چاہۓ کہ اس امدادي کام کيلۓ ايک وزارت قائم کرے اور اس کا وزير کوئي نيک اور پرہيزگار آدمي کو بناۓ۔ پھر اس وزير سے آخر ميں حساب لے کر اسمبلي ميں پيش کرے۔
يہ سب بعد کي باتيں ہيں اس وقت حکومت سے التماس ہے کہ وہ دن رات ايک کرکے کم ازکم متاثرہ لوگوں کي خوراک کا بندوبست تو کرے ۔ہماري التجا ہے کہ حکومت کے سارے وزير اسلام آباد ميں بيٹھنے کي بجاۓ اپنے اپنے علاقے چن ليں اور امدادي کاروائيوں کي خود نگراني کريں۔
خدا ہميں اپنے ضرورت مند لوگوں کي دل کھول کر مدد کرنے کي توفيق عطا فرماۓ اور اس موقع پر حرص اور لالچ سے بچا ۓ رکھے۔