پرویز ایک دہائی قبل ٹیکسلہ سے کینیڈا منتقل ہوا اور یہاں سیاسی پناہ لے کر ٹیکسی چلانی شروع کردی۔ بعد میں اس نے اپنی فیملی بھی بلا لی۔ آج کے پاکستانی اور کینیڈا کے اخباروں کے مطابق اس نے اپنی سولہ بیٹي کو گلا دبا کر قتل کردیا۔ بعد میں اس نے پولیس کو فون پر قتل کی اطلاع دے دی۔ جب پولیس اسے پکڑنے آئی تو اس کے بیٹے نے پولیس والوں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ قتل اس کے باپ نہیں کیا۔ اس نے باپ کی گرفتاری میں جب رکاوٹ بننے کی کوشش کی تو پولیس نے اسے بھی گرفتار کرلیا۔

 اب پہلے تو سارے کینیڈا میں اس قتل کے چرچے ہوں گے، پھر مقدمہ چلے گا اور پرویز اپنی باقی عمر جیل میں گزار دے گا۔

پرویز کے بقول اس نے بیٹی اقصٰی پرویز کو اس لیے قتل کیا کہ وہ نازیبا لباس پہنتی تھی۔ ہمارے شک اور اخبارات میں بیان کی گئی وجہ اس سے بھی بھیانک ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کی بیٹی پچھلے ایک ہفتے سے گھر سے غائب تھی اور جب وہ گھر واپس آئی تو اس نے اسے قتل کردیا۔

صرف یورپ میں ہی نہیں پاکستان میں بھی اگر آپ اپنے بچوں کی دیکھ بھال اچھے طریقے سے نہیں کریں گے تووہ  بے راہ روی کا شکار ہوجائیں گے۔ یورپ میں بچوں کی نگرانی زیادہ ضروری ہے کیونکہ یہاں کا ماحول پاکستان کے ماحول سے زیادہ آزادخیال ہے۔ ہمارا تجربہ یہ کہتا ہے کہ جب آپ روزی روٹی کمانے یا غربت کی وجہ سےاپنے بچوں کی پرورش کیلیے اچھے علاقے کا انتخاب نہیں کریں گے تو پھر یہ دن تو دیکھنا پڑیں گے۔ ٹورانٹو کراچی کی طرح ایک میٹرو سٹی ہے یہاں دنیا کے ہرکونے سے لوگ آ کر آباد ہوتے ہیں۔ اس کی آبادی بڑي تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہاں پر سکھوں، افریقیوں اور ویتنامیوں کے گینگ ہیں جو ہرطرح کے جرائم میں ملوث ہیں۔ اگر آپ نے ان کے علاقے میں رہائش اختیار کرلی تو پھر آپ کے بچوں کو بگڑنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ دوسرے پرویز کی طرح اگر آپ بارہ بارہ گھنٹے ٹیکسی چلانے کے بعد اپنی فیملی کیلیے وقت نہیں نکالیں گے تو آپ کے بچے باہر کے ماحول کا برا اثر ضرور لیں گے۔

ہمارے ایک دوست ٹورانٹو سے باہر واٹرلو کے علاقے میں رہتے ہیں جو رہنے کے اعتبار سے اچھی جگہ ہے۔ ان کی بیٹی نے وہیں سے گریجوایشن کی اور ابھی اس کی شادی ایک باعمل مسلمان سے کی ہے۔ ان کی بیٹی بھی پابند صوم و صلوة اور نیک ہے۔ بیٹی نیک کیوں نہ ہوتی، ہمارے دوست نے پورا وقت اپنے بچوں کو دیا ہے۔ انہوں نے بچوں کو پانچ وقت کی نماز پڑھوائی، قرآن کا درس دیا اور قدم قدم پر ان کو اسلامی طرز زندگی سکھائے۔ ان کا بیٹا بھی ماشآاللہ نیک ہے اور امید ہے ماں باپ کی طرح شرافت کو اوڑنا بچھونا بنائے گا۔

اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ پرویز صاحب کے پاس بچوں کیلیے بالکل وقت نہیں ہوتا ہوگا۔ ہوسکتا ہے ان کی بیوی بھی کہیں نوکری کرتی ہو اور وہ بیٹي کی پرورش صیحح طریقے سے نہ کرپائی ہو۔

کئی دفعہ ہم بچوں سے اس لیے لاپرواہی برتتے ہیں کہ بچے چھوٹے ہیں مگر جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو پھر قابو نہیں آتے۔ بچوں کی بہتات بھی بعض اوقات ان کی پرورش میں رکاوٹ بنتی ہے۔ خدا ہمیں اتنے ہی بچے پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جتنے ہم پال سکیں۔ آمین