آج کل پاکستان امپورٹڈ سابقہ وزیراعظم شوکت عزیز کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ایسے مسائل میں گھرا ہوا ہے کہ ان پر بقول چوہدری شجاعت حسین “مٹی پاؤ” کے حل کے سوا کوئی اور حل نظر ہی نہیں آرہا کیونکہ بحران پیدا کرنے والے اب بھی اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

آٹے کا بحران ہر غریب کے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ چہ جائیکہ حکومت ذخیرہ اندوزوں اور بحران پیدا کرنے والوں کیخلاف کاروائی کرتی اس نے آٹے کی ترسیل کو فوج کی نگرانی میں دے کر معاملے پر مٹی ڈال دی ہے۔

گیس کی لوڈ شیڈنگ کو سب میں برابر تقسیم کرنے کی بجائے غریبوں کو ہی اس سے نپٹنے کیلیے اخبار میں یہ اشتہار دے کر عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

یہ گیس کی لوڈ شیڈنگ نہیں

 بلکہ گیس کی لوڈ شیئرنگ ہے۔

  آیے مل جلکر اس مشکل وقت کا مقابلہ کریں

بجلی کے بحران کو کم کرنے کیلیے کاروباری مراکز کو شام ہوتے ہی بند کرنے کا حکم دے کر مسئلے کا حل نکال لیا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت ایوان صدر اورسرکاری دفاتر کے اندھیرے عوام کو دکھا کر تسلی دیتی کہ دیکھو ہم بھی لوڈ شیئرنگ کررہے ہیں اور پچھلے آٹھ سال میں ڈیم نہ بنانے والوں کو عدالتی کٹہرے میں کھڑا کرکے سزا دیتی۔ لیکن عوام کو روز بروز بجلی کی لوڈ شیڈنگ کم یا ختم کرنے کی نوید دے دے کر معاملےپر مٹی ڈالنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

بینظیر کا قتل ہوئے دوہفتے سے زیادہ ہوچکے ہیں اور ابھی تک اصل قاتل کا تعین نہیں ہوسکا۔ اس معاملے کو پوسٹ مارٹم کرنے یا نہ کرنے اور اقوام متحدہ سے تحقیق کرانے یا نہ کرانے کی بحث میں الجھا کر نمٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن لگتا ہے حکومت اس معاملے پر اپنی کوشش کے باجود مٹی نہیں ڈال سکے گی۔

اگر آج چیف جسٹس افتخار ہوتے تو وہ ان معاملوں کو مٹی پاؤ کہ کر نظر انداز نہ ہونے دیتے۔ حیرت ہے موجودہ چیف جسٹس پر جنہوں نے اب تک ایک بھی سوموٹو ایکشن نہیں لیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آٹا بحران پر وہ ذخیرہ اندوزوں کو عدالت میں بلا کر سرزنش کرتے اور ان کے گوداموں کو عام پبلک کیلیے کھول دیتے۔ بجلی کے بحران کی تحقیقات کرتے اور پچھلے آٹھ سالوں میں ڈیم نہ بنانے والوں کی نشاندہی کرتے اور انہیں عوام میں رسوا کرتے۔ کیا کیا جائے اس حکومتی گماشتوں کا جنہوں نے اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے چیف جسٹس افتخار کو گھر بھیج دیا۔ لیکن حکومتی بدمعاش یاد رکھیں چیف جسٹس کا بحران جو پہلے بھی ان کیلیے مسئلہ بنا رہا اب بھی ان کا ناک میں دم کئے رکھے گا اور انہیں اس معاملے کو مٹی پاؤ کہ کر ختم نہیں کرنے دے گا۔

اتنے سارے بحرانوں کا سادہ سا حل صدر مشرف کا استعفٰی ہے اگر وہ کمانڈو بن کر دکھائیں تو وگرنہ تاریخ انہیں بھی جنرل ایوب، يححٰی اور ضیا کیساتھ گمنامی کے اندھیروں میں دھکیل دے گی۔