رنگیلے نے اپنے عروج کے دور میں ایک فلم انسان اور گدھا بنائی تھی اور گدھے اور انسان کی کچھ ملتی جلتی عادتوں کی بنیاد پر اس میں مزاح پیدا کیا تھا۔ یہ فلم اس دور میں بہت مشہور ہوئی تھی۔ اگر ہم ارد گرد کے ماحول کا موازنہ کریں تو ہمیں بھی انسان اور گدھے میں بہت سی باتیں مشترک نظر آتی ہیں۔آج  ان میں سے صرف ایک عادت کا تذکرہ ہم کریں گے۔

اگرآپ نے مزدوروں کو گدھے پر مٹی ڈھوتے دیکھا ہے تو آپ کو یاد ہوگا کہ گدھا سارا دن مٹی ڈھو ڈھو کر ایک ہی راستے کا عادی ہو جاتا ہے اور جب شام کو چھٹی کے وقت مزدور گدھوں کو الٹی سمت میں گھر لے جانے کی کوشش کرتا ہے تو گدھے پرانے راستے پر ہی چلنے کی ضد کرتے ہیں۔  مزدور بڑی مشکل سے انہیں کھینچ کھینچ کر گھر کی طرف لے جاتا ہے۔

یہی حال انسان کا ہے۔ آپ روزانہ ایک ہی راستے سے ڈرائیو کرتے ہوئے کئی سال سے نوکری پر جا رہے ہوتے ہیں لیکن جس دن آپ کو کسی کام سے دوسری سمت جانا پڑ جائے تو کئی دفعہ گاڑی نوکری والی روڈ پر ہی مڑ جاتی ہے۔ خاص کر جب آپ بے دھیانی میں اور کسی ترنگ میں جارہے ہوں تو غلطی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

ہمارے گھر کے پاس مین گلی میں تین سٹاپ سائن ہیں۔ درمیان والے سٹاپ سائن کے ساتھ والے چوک میں سڑک ناہموار ہے اور گاڑی تھوڑی اچھلتی ہے۔ سڑک ہموار کرنے کی بجائے میونسپل کمیٹی والوں نے اس کا آسان حل یہ نکالا کہ سٹاپ سائن ساتھ والے چوک سے اٹھا کر وہاں نصب کردیا۔ یقین کریں ایک ماہ گزرنے کے باوجود صرف ہم ہی نہیں باقی کئی ڈرائیور بھی کئی دفعہ پرانے سٹاپ والے چوک میں گاڑی روک لیتے ہیں۔

 اسی عادت کی وجہ سے بعض لوگوں کو نوکری بدلتے ہوئے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ کئی سالوں سے ایک ہی  محکمے میں کام کرنے کے بعد دوسرے محکمے میں ٹرانسفر ہونا لوگوں کو اچھا نہیں لگتا۔ جوں جوں آدمی بوڑھا ہوتا ہے یہ عادت پکی ہوتی جاتی ہے۔ اسی لیے کمپنیاں بوڑھوں پر جوانوں کو ترجیح دیتی ہیں کیونکہ نوجوان اپنے آپ کو نئے حالات میں آسانی سے ڈھال لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف نوعیت کے کام ایک ساتھ کرنے کی خوبی کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔