پچھلے کئی سالوں سے سینکڑوں غائب کردہ پاکستانیوں کے لواحقین سراپائے احتجاج بنے ہوئے ہیں مگر ان کی کوئی شنوائی نہیں ہورہی۔ صرف معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کی ذاتی کوششوں کی وجہ سے ان میں سے صرف سو ڈیڑھ سو رہا ہوئے ہیں۔ باقی کہاں ہیں کوئی بتانے کیلئے بھی تیار نہیں ہے۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی معزولی کے بعد توان لوگوں کو ڈھونڈنے کا سلسلہ  بھی  بند ہوچکا ہے۔ ابھی کل ہی غائب کردہ پاکستانیوں کے لواحقین نے چوہدری شجاعت اور مشاہد حسین سے ملاقات کرکے ان سے مدد کی اپیل کی ہے۔ ان دونوں نے جو پانچ سال حکومت میں رہنے کے باوجود ان لوگوں کی کوئی مدد نہیں کرسکے اب ہارنے کے بعد ان کے lostpeopleagitition1.jpgحق میں صرف بیان داغ کر فارغ ہوگیے ہیں۔

ہمارے انسانی حقوق کے وزیر انصاربرنی بھی پچھلے کئی ماہ سے خودمختار ہونے کے باوجود ابھی تک ایک بھی غائب کردہ  شخص کو برآمد نہیں کراسکے۔ حالانکہ وہ خود کو انسانی حقوق کے  چیمپیئن مانتےہیں اور ان کی اس میدان میں بے بہا خدمات بھی ہیں۔ پچھلے چند روز سے برنی صاحب نے کشمیرسنگھ کو برآمد کرکے خودنمائی کا خوبصورت مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف کشمیر سنگھ کو ڈھونڈا بلکہ صدر مشرف سے اسے معافی بھی دلوائی۔ یہ خود نمائی پتہ نہیں کہاں تک جاتی اگر انڈیا انہیں کشمیر سنگھ کیساتھ بھارت آنے سے نہ روکتا۔

انصاربرنی نے اس وقت انسانی حقوق کی نگران وزارت قبول کی جب ملک میں صدرمشرف نے انسانی حقوق معطل کررکھے تھے۔ اچھا ہوتا اگر برنی صاحب نگران وزارت قبول نہ کرتے اور غیرجانبدار رہ کر انسانی حقوق کی رکھوالی کا کام کرتے رہتے۔ انصاربرنی نے نگران وزیر کی حیثیت سے چیف جسٹس کی نظربندی سے انکار کرکے اپنی غیرجانبداری پر بٹہ لگا دیا ہے۔

 ایک طرف خدا کی قدرت دیکھیے صرف  ایک آدمی کی خود نمائی کیلیے ایسے شخص کو رہا کردیا گیا جو جاسوسی کے الزام میں موت کی سزا پاچکا تھا اور رہائی کے بعد اس نے الاعلان کہ دیا کہ وہ مسلمان نہیں ہوا۔ حالانکہ وہ مذہب اسلام اختیار کرکے اپنا نام محمد ابراہیم بھی رکھ چکا تھا۔ ہمارے دوست بلاگر کا کہنا سچ ثابت ہوا کہ اس طرح کے لوگ واپس وطن لوٹ کر اپنے پرانے مذہب کو دوبارہ اپنا لیتے ہیں۔ دوسری طرف بدنصیبی کی بھی انتہا دیکھیے کہ انسانی حقوق کا چیمپیئن اپنے ملک کے غائب کردہ لوگوں کی مدد کرنے سے قاصر ہے۔

غائب کردہ پاکستانیوں سے تو کشمیر سنگھ بازی لے گیا اور ہمارے وزیرباتدبیر کی خودنمائی اس کے کام آگئی۔ کتنا اچھا ہوتا اگر انصار برنی صاحب وہی وقت اپنے غائب شدہ پاکستانیوں کی برآمدگی کیلیے صرف کرتے جو انہوں نے کشمیر سنگھ کی رہائی کیلیے ضائع کیا۔ کشمیر سنگھ کی رہائی پر ہمیں اتنا افسوس نہیں ہے جتنا انصار برنی اور صدر مشرف کی بے حسی پر ہے۔ اگر صدر مشرف ایک جاسوس کو معاف کرسکتے ہیں تو کیا وہ غائب کردہ پاکستانیوں کی خطائیں معاف نہیں کرسکتے۔ لگتا ہے صدر مشرف صاحب اور ان کے حامیوں کو اب بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ موجودہ انتخابات میں ان کی شکست کی وجہ غائب شدگان اور خودساختہ انتہاپسندی کی جنگ میں مارے جانے والوں کے لواحقین کی آہیں ہیں جو انہیں لے ڈوبیں۔

اب بھی وقت ہے سنبھلنے کا اور لوگوں کی دعائیں لینے کا۔ صدر مشرف اور انصار برنی صاحب سے گزارش ہے کہ وہ غائب شدگان کی برآمدگی میں مدد کریں اور انہیں اسی طرح رہا کریں جس طرح کشمیر سنگھ کو رہا کیا ہے۔