کامیاب آدمی وہی ہوتا ہے جو مشکل میں اپنے اوسان بحال رکھے۔ ہم نے بارڈر کراسنگ کے دوران گوروں کو بھی کانپتے ہاتھوں کیساتھ امیگریشن آفیسر کے سامنے پیش ہوتے دیکھا ہے۔

 ابھی کل کی بات ہے ایک صاحب کی بنک میں ٹریننگ ہورہی تھی اور جب ہم اپنا چیک جمع کرانے اس کےپاس حاضر ہوئے تو اس کی ساتھی کی مدد کے باوجود نئے ٹیلر کی انگلیاں کی بورڈ پر چلتے ہوئے کانپ رہی تھیں۔

 جب ہم نے ہاکی کھیلنا شروع کی اور پہلی بار فائنل میں پنلٹی سٹروکس پر فیصلے کی باری آئی تو ہم سے گیند ٹھیک طریقے سے گول میں پھینکی نہ جاسکی یہ الگ بات تھی کہ گیند گول کے اندر چلی گئی۔

جب ٹی وی پر ہماری ٹیم ہار جیت سے صرف دو قدم دور ہو تو ہم سب کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی ہیں۔ بعض اوقات تو آدمی بے چینی میں ادھر ادھر ٹہلنا شروع کردیتا ہے۔ یا پھر دل کی دھڑکن کنٹرول کرنے کیلیے اس مفروضے پر عمل کرتا ہے کہ کوئی بھی جیتے یا ہارے اسے کیا فرق پڑے گا۔ لیکن اس کے باوجود آدمی اپنی بے چینی پر کنٹرول نہیں کرپات۔ یہ تو تماشائی کا حال ہوا، اب جو ٹیم میں کھیل رہا ہے اس کا کیا حال ہوگا یہ وہی جانتا ہے یا اس کا خدا۔

کل لاہور بادشاہ کیساتھ بھی ہی کچھ ہوا۔ آئی سی ایل کا دوسرا فائنل تھا۔ لاہور بادشاہ دوبارہ بڑا سکور کرنے سے قاصر رہے لیکن انہوں نے اچھی باؤلنگ سے مقابلےمیں آخر تک جان ڈالے رکھی۔ ان کی بدقسمتی رانا نوید کے آخری اوور میں شروع ہوئی جب عبدالرزاق کی ٹيم حیدرآباد ہیروز کو میچ جیتے کیلیے گیارہ رنز درکار تھے مگر رانا نوید اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے اور اوور میں دو نو بال اور ایک  وائیڈ بال کراکے حیدرآباد ہیروز کو میچ جیتنے کا موقع فراہم کر دیا۔ لیکن پھر رانا نوید نے اپنے اوسان بحال کیے اور انہوں نے آخری گیند پر آخری کھلاڑی کو آؤٹ کرکے میچ ٹائی کرادیا۔

لیکن جب باؤل آؤٹ کا مرحلہ شروع ہوا تو لاہور بادشاہ کے باؤلروں کے پھر ہاتھ پاؤں پھول گئے اور وہ ٹینشین میں ایک بھی وکٹ نہ اڑا سکے۔ اس طرح انہوں نے فائنل ہار کر ٹرافی اور شہرت کیساتھ ساتھ ایک کروڑ روپے کا نقصان بھی اٹھایا۔

اس مقابلے کے بعد یہی ثابت ہوا کہ جیت اسی کی ہوتی ہے جو مشکل میں ہمت نہیں ہارتا اور اپنے اوسان بحال رکھتا ہے۔  وہی جیتے گا جو ہر قسم کے حالات میں خود پر قابو رکھے گا اور کسی قسم کی افراتفری کا شکار نہیں ہوگا۔ لیکن یہ صلاحیت زیادہ تر تجربے کی بنا پر ہی حاصل ہوتی ہے۔