اپنی زندگی میں بہت ساری کامیابیوں کیساتھ ساتھ ہمیں کچھ ناکامیاں بھی ملیں۔ ان ناکامیوں نے اپنی زندگی پر بہت گہرے اثرات چھوڑے۔ کبھی کبھی جب ہم ان ناکامیوں کا ذکر اپنے احباب سے کرتے ہیں تو وہ مثبت سوچ کے اصول کو استعمال کرتے ہوئے ہماری کامیابیاں گن کر ہماری ڈھارس بندھاتے ہیں۔ لیکن ہم ہیں کہ اپنی ناکامیوں کی وجوہات مسلسل ڈھونڈنے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔
ویسے تو جو ناکامیوں کی وجوہات ہم نے طےکر رکھی ہیں وہ ہمارا قومی المیہ بھی ہیں۔ مثال کے طور پر ہم لوگ اکثر جب کسی کے کسرتی جسم کو دیکھتے ہیں یا جسمانی صحت کیلیے ورزش کی اہمیت سے واقف ہوتے ہیں تو روزانہ ورزش کرنا شروع کردیتے ہیں لیکن صحتمند ہونے کی وجہ سے ہم پھر ورزش کی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں اور اسے ترک کردیتے ہیں۔ یہ سلسلہ تب تک جاری رہتا ہے جب تک ہمیں ورزش نہ کرنے کی وجہ سے بلڈپریشر یا زیابیطس جیسی بیماری نہیں لگ جاتی۔ اسی طرح کی صورتحال سگریٹ نوش کے ساتھ پیش آتی ہے انسان زندگی میں کئی بار سگریٹ نوشی ترک کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر کامیاب تبھی ہوتا ہے جب دل یا پھیپھڑوں کی بیماری کی وجہ سے اس کا ڈاکٹر اسے زندگی کے خاتمے کی وارننگ دیتا ہے۔
پچھلے ہفتے ہم نے اپنے ایک ہمدرد سے اپنے اہم کاموں کے تسلسل ٹوٹنے کا ذکر کیا تو انہوں نے “پیشن” یعنی اپنے کام سے لگن کو اس کا حل قرار دیا یعنی جب تک آپ میں کسی کام کا شوق نہیں ہو گا وہ کام آپ جاری نہیں رکھ سکیں گے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ یہ “پیشن” کیسے حاصل ہو گا تو وہ کہنے لگے کہ یہ آدمی کی ذات پر منحصر ہے۔
یہی سوال کل ہم نے اپنے دوستوں کے سامنے رکھا۔ ایک کی رائے تھی کہ کام میں تسلسل یعنی جہدمسلسل کیلیے ضروری ہے کہ آدمی کو اس کے نفع نقصان کا احساس ہو۔ ،مثال کے طور پر وہی آدمی نماز پڑھے گا جسے اس کے ثواب اور گناہ پر پکا یقین ہو گا۔
اسی طرح ایک صاحب نے دوست احباب کی صحبت کی بات کی اور کہا کہ اگر ہم لوگ کام تنہا کرنے کی بجائے سرعام کریں گے یا دوستوں کیساتھ مل کر کریں گے تو اس کے جاری رہنے اور مکمل ہونے کے زیادہ امکانات ہوں گے۔ اس کی مثال انہوں نے پانچ وقت کی نماز کی دی۔ اگر ہم لوگ گھر کی بجائے مسجد نماز پڑھنے جائیں تو غیرحاضری کی صورت میں دوست احباب آپ کی سرزنش کرنے کیساتھ ساتھ ہمت بھی بڑھائیں گے۔ اس طرح آپ نماز کا تسلس برقرار رکھ پائیں گے۔
ایک صاحب نے کام کی اہمیت کو سب سے اہم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم وہی کام جاری رکھیں گے جس کے بغیر ہمارا گزارہ ناممکن ہو گا۔ یعنی آدمی نوکری کا تسلسل ساری عمر جاری رکھتا ہے بلکہ روزانہ وقت پر کام پر پہنچتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایک بھی دن کام سے لیٹ ہوا یا چھٹیاں کرنے لگا تو اس کی نوکری چلی جائے گی اور وہ بھوکا مرنے لگے گا۔ ورزش یا پانچ وقت کی نماز کے تسلسل میں ناکامی کی وجہ ان کاموں کی وقتی طور پر بے وقعتی ہوتی ہے۔ یعنی آپ ورزش نہ کرکے بھی کئ سال صحت مند رہ سکتے ہیں اور نماز نہ ادا کرکے مر نہیں جاتے۔
ایک صاحب نے پانچ وقت کی نماز نہ پڑھنے کا ہمارے آخرت پر یقین نہ ہونے کو ذمہ دار قرار دیا۔بقول ان کے اگر ہمیں پکا یقین ہو کہ بے نماز کو دوزخ کی آگ میں جلایا جائے گا تو کوئی بھی نماز قضا نہیں کرے گا۔
ہم اب بھی اپنے بہت سارے کاموں کے تسلسل کو برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہو پارہے۔ اس بلاگ کو لکھتے ہوئے ہمیں چار سال ہونے کو ہیں اب ہمارا اس سے بھی دل بھرنے لگا ہے۔ شاید اسلیے کہ اسے ہم وقت کا ضیاع سمجھنے لگے ہیں کیونکہ اس سے وہ فوائد حاصل نہیں ہو پائے جن کی ہمیں امید تھی۔
کیا آپ ہماری اس الجھن کے حل کیلیے رہنمائی کرسکتے ہیں۔ یعنی کوئی ایسا تیربہدف نسخہ بتائیے جسے استعمال کرکے ہم کسی بھی مہم کو راستے میں چھوڑنے کی بجائے منزل تک پہنچا کر دم لیں۔
ہمارے ناکام منصوبوں میں عربی کی ادھوری تعلیم، ورزش میں عدم تسلسل، انگریزی زبان میں کجی، پیشہ بدلنے میں ناکامی، بچوں کی تربیت سے لاپرواہی وغیرہ سرفہرست ہیں۔
5 users commented in " تسلسل "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackالسلام علیکم۔۔
بلاگ لکھنے کے تسلسل کو جاری رکھیں۔۔آپ اپنی طرف سے جو خدمات سر انجام دے رہیں دیتے رہیں ۔۔۔ جزاک اللہ الخیر۔ زندگی نام ہے جہد مسلسل کا۔۔ اور مایوسی گناہ ہے۔۔۔۔
Keep the truth up Sir
تم یہ کہتے ہو اب کوئی چارہ نہیں!
تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چکی!
جس میں رکھا نہیں ہے کسی نے قدم
کوئی اترا نہ میداں میں ، دشمن نہ ہم
کوئی صف بن نہ پائی ، نہ کوئی علم
منتشرِ دوستوں کو صدا دے سکا
اجنبی دُشمنوں کا پتا دے سکا
تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چُکی!
جس میں رکھا نہیں ہم نے اب تک قدم
تم یہ کہتے ہو اب کوئی چارہ نہیں
جسم خستہ ہے ، ہاتھوں میں یارا نہیں
اپنے بس کا نہیں بارِ سنگ ستم
بارِ سنگِ ستم ، بار کہسار غم
جس کو چُھوکر سبھی اک طرف ہوگئے
بات کی بات میں ذی شرف ہوگئے
دوستو، کوئے جاناں کی نا مہرباں
خاک پر اپنے روشن لہو کی بہار
اب نہ آئے گی کیا؟ اب کِھلے گا نہ کیا
اس کفِ نازنیں پر کوئی لالہ زار؟
اس حزیں خامشی میں نہ لَوٹے گا کیا
شورِ آوازِ حق ، نعرئہ گیر و دار
شوق کا امتحاں جو ہُوا سو ہُوا
جسم و جاں کا زیاں جو ہُوا سو ہُوا
سُود سے پیشتر ہے زیاں اور بھی
دوستو ‘ ماتم جسم وجاں اور بھی
اور بھی تلخ تر امتحاں اور بھی
خوب جناب،
ھماری دل کی بات آپ نی بلاگ مین لکحدی۔
اپنی طبیعت بھی کچھ ایسی ہے ۔
بہت جلد ہی پیشن بھی ختم ہو جاتا ہے۔
َکہتے ہیں ہائی آئی قیو والی لوگ بہت جلد ایک چیز سے دوسری چیز کی طرف چلے جاتے ہیں۔ 🙂
آپ نے کام کے تسلسل کے حوالے سے انسانی جذبات کا بہت اچھا تجزیہ پیش کیا ہے۔ میرے ذہن میں ایک اور خیال ہے وہ یہ کہ مقصد سے لگن بھی کسی کام کو مسلسل جاری رکھنے کا سبب بنتی ہے۔ یعنی آپ کو اس سے ظاہری طور پر کوئی فائدہ حاصل نہ ہو بھی ہو تب بھی آپ اس کام کو جاری رکھتے ہیں۔ البتہ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ تنوع کو پسند کرتا ہے اور نت نئے تجربات کا شوق اس کے دل کو لبھاتا ہے۔ بلاگنگ کے دوران ایسے لمحے کئی بار آتے ہیں جب آپ کا دل اچاٹ ہونے لگتا ہے۔ اس کاسب سے بہتر حل تو یہ ہے کہ آپ نئے موضوعات پر لکھیں اگر ایسا بھی ممکن نہیں ہے تو کچھ عرصے کے لیے اس سلسلے کو روک دیں، جب دوبارہ ذہن اس طرف راغب ہونے لگے تو لکھنا شروع کر دیں۔ اور میں ذاتی طور پر یہ بھی سمجھتا ہوں کہ لکھنے والا آدمی تمام تر کوشش کے باوجود لکھنے کو ہمیشہ کے لیے ترک نہیں کر سکتا البتہ مناسب یہی ہے کہ کچھ عرصے کے لیے سلسلہ موقوف کردے۔
پیشہ بدلنے میں ناکامی،
aisa konsa pesha hai ju aap badalna chahtay hain?
عربی میں کہتے ہیں یا عرب کہتے ہیں ایسے موقع پر : حبیبی سوا سوا (یعنی دوست ہم برابر ہیں) ۔ ہماری بھی کچھ ایسی ہی حالت ہے ۔
یہ ایک نہایت سنجیدہ موضوع ہے جس پر سوچنا چاہیئے اور بات کرنی چاہیئے ۔ میں سوچ رہا ہوں اگر کچھ نتیجہ نکل آیا تو لکھ دوں گا ۔
Leave A Reply