آج جنرل صاحب نے ايک حاضر سروس جنرل کو ہٹا کر ريٹائيرڈ جنرل کو نيب کا سربراہ بنا ديا ہے۔ اميد يہي ہے کہ اس تبديلي سے کوئي خاص فرق نہيں پڑے گا اور نيب جيسے تھا ويسے ہي رہے گا۔
يہ ادارہ پاکستان ميں ہميشہ سے مختلف ناموں سے موجود رہا ہے اور اس کو ہميشہ سياسي مقاصد کيلۓ استعمال کيا جاتا رہا ہے۔ اس ادارے کوحکومت نے اپوزيشن کو ڈرانے دھمکانے کيلۓ رکھا ہوا ہے۔ ضياالحق کے دور سے اس ادارے نے بڑے بڑے کارنامےسر انجام ديۓ ہيں۔ ضيا نے اس ادارے کے زور پر سياستدانوں کو اپنے ساتھ ملاۓ رکھا۔ پھر بينظير اور نوازشريف نے ايک دوسرے کے ساتھيوں کو جيلوں کي ہوا کھلائي۔
اب جنرل مشرّف اس کا بھر پور فائيدہ اٹھا رہے ہيں۔ اسي کا رعب دکھا کر پي پي پي کو توڑا اور سياسي حکومت بنائي۔ اسي ادارے کے خوف کي وجہ سے نواز شريف کے کئ معتمد ساتھي اسے اکيلا چھوڑ کر جنرل مشرّف کے ساتھ آملے۔ شيخ رشيد جو اپنے آپ کو بہت بڑا سياسي ليڈر سمجھتے ہيں اسي نيب کے خوف سے نواز شريف کو چھوڑنے پر مجبور ہوۓ۔
اس ادارے نے جہاں اپوزيشن کے بڑے بڑے ليڈروں کو جيل کي ہوا کھلائي وہاں ان ليڈروں کو کھلي چھٹي دي جو مشرّف حکومت کے ساتھ آملے۔
اس ادارے نے آج تک کسي حکومتي اہلکار کو سزا نہيں دلوائي بلکہ کسي سرکاري عہديدار کو ہاتھ تک نہيں لگايا۔ اس ادارے نے ہي بڑے بڑے قرض نا دہندگان کو کھلے عام پھرنے کي چھٹي دي يہاں تک کہ ايک وزيرِ داخلہ جو نادہندہ تھے کئي سال تک وزارت کے مزے لوٹتے رہےاور ادارےنے ان کي قرض نادہندگي سے آنکھيں چراۓ رکھيں۔
موجودہ سربراہ کو ہم تب مانيں گے جب وہ کسي بڑي سرکاري مچھلي کو جال ميں پھنسائيں گے۔
زلزلے کے بعد ہمارے وزيروں کي تو لگتا ہے چاندي ہوگئي ہے اور انہيں نادر موقع ملا ہے باہر کي امداد ہڑپ کرنے گا۔ اب يہ موجودہ سربراہ کي ذمہ داري ہے کہ وہ اس بدعنواني کو روکيں۔ مگر ايسا نہيں ہو گا اور حالا ت ويسے کے ويسے ہي رہيں گےکيونکہ بقول حکومت کے سارے وزير اور جنرل پاک باز اور نيک لوگ ہيں اور خرابي صرف حزبِ اختلاف کي صفوں ميں ہے۔