شیری رحمان کی فوٹو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے میک اپ پر روزانہ کتنا خرچہ اٹھتا ہو گا۔ بے شک ہو سکتا ہے یہ خرچہ ان کی جیب سے ہوتا ہو مگر ایسے ملک کی وزیراطلاعات کو اپنے بناؤ سنگھار پر اتنا خرچ زیب نہیں دیتا جو بنک کرپسی کے دہانے پر کھڑا ہو  ۔ اگر وہ یہی پیسہ بچا کر زلزلہ زدگان کے تباہ شدہ سکولوں کی دوبارہ تعمیر کیلیے وقف کر دیا کریں تو ان کے دور حکومت میں ایک سکول تو تعمیر ہو ہی جائے گی۔

دوسرے یہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ شیری رحمن اتنے میک اپ میں کیسے اپنے سرکاری فرائض انجام دیتی ہوں گی۔ وہ پاکستان کی جھلستی گرمی میں کیسے اپنے چہرے کے پاؤڈر کو پگھلنے سے بچاتی ہوں گی۔ ان کی آنکھوں کا کاجل کیا غریبوں کی کسمپرسی کو دیکھ کر پگھلتا نہیں ہو گا۔ کیا ان کے نیل پاش زدہ ناخن ان کے دفتری کام میں رکاوٹ نہیں بنتے ہوں گے۔

پتہ نہیں شادی شدہ ہونے کے باوجود محترمہ وزیر کس کو اپنی کاجل بھری آنکھوں کے تیروں سے گھائل کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ محترمہ کے بالوں کا بناؤ سنگھار، کپڑوں کی بناوٹ سے تو یہی لگتا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی بھوکا نہیں ہے اور ہر طرف امن ہی امن ہے۔

اسی طرح اگر ہم اپنے مرد حکمرانوں کے رہن سہن اور لباس کو دیکھیں تو لگتا ہی نہیں ہے کہ وہ ایک ایسے ملک کے حکمران ہیں جہاں لوگ آٹے کو ترس رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکمران اپنے ٹھاٹھ باٹھ تب تک ایک طرف رکھ دیتے جب تک ملک معاشی بحران سے باہر نہ نکل آتا ہے اور موجودہ دہشت گردی سے عوام محفوظ نہ ہو جاتے۔

ایک طرف لوگ آٹے کیلیے ٹرکوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور روز عوام دہشت گردوں،  اتحادی اور اپنی افواج کے ہاتھوں مر رہے ہیں اور دوسری طرف ہمارے حکمران روزانہ نئی سے نئی پوشاک پہن کر جلوہ افروز ہو رہے ہیں۔

ایسا کب ہو گا جب ہمارے حکمران اپنے عوام کے درد کو محسوس کرنے لگیں گے؟