اگر دنیا میں بھولنے کی بیماری عام نہ ہوتی تو آدھی دنیا پاگل ہو چکی ہوتی۔ بڑے بڑے سانحے آدمی پر پہاڑ بن کر گرتے ہیں اور پھر وہ انہیں بھول کر اپنے روز مرہ کے کاموں میں مشغول ہو جاتا ہے۔

بھولنے کی بیماری سب سے زیادہ آجکل مسلمانوں میں پائی جاتی ہے۔ پاکستان کو دولخت کرنے والے بھارت کی زیادتی ہم بھول چکے ہیں اور اب اسی کی ثقافت میں رنگنے جا رہے ہیں۔ وہ بھلے ہمارے فنکاروں کو مار پیٹ کر ملک بدر کر دے مگر ہم نے اس کے ٹی وی شوز کی ریٹنگ بڑھانے میں اس کی مدد ضرور کرنی ہے۔

ہم حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ پڑھنے کے بعد مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ داروں کو بھی بھول چکے ہیں۔

بھٹو خاندان بھٹو کو پھانسی دینے والے آمر ضیاالحق کو بھول چکا ہے اور اس مقدمے کو دوبارہ کھولنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ اسی طرح بینظیر کی شہادت تو ذرداری صاحب کیلیے رحمت ثابت ہوئی وہ بھلا کیسے بینظیر کے قاتلوں کے نام بتائیں گے اور کب چاہیں گے کہ بینظیر کے قاتل پھانسی لگیں۔

ہم نے سب کچھ بھول کر مسٹر ٹین پرسینٹ کو اپنا صدر چن رکھا ہے۔ ہم نے کراچی فسادات، لال مسجد کے سانحے اور قانون توڑنے والے آمر کو معاف کر دیا ہے۔

ہم ڈاکٹر قدیر کے احسان کو بھولنے کیساتھ ساتھ انہیں بھی بھول چکے ہیں۔ اب ان کی رہائی کی بات دوبارہ اگلے انتخابات میں ہو گی تب تک وہ اپنے گھر آرام کریں۔

ہم فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم کو بھی بھول جائیں گے۔ ہم شمالی علاقوں پر ڈرون حملوں کو بھی بھول جائیں گے۔ ہم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھی بھول جائیں گے۔ سب سے بڑی بات ہم ان گمشدہ افراد کو بھی بھول جائیں گے جن کے رشتہ دار پچھلے آٹھ سالوں سے انہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔

ہم اپنے ارد گرد ہونےوالی زیادتیوں کو اسی وقت بھول کر اپنے کام میں مگن ہو جاتے ہیں۔ ہم تو یہ بھی بھولتے جا رہے ہیں کہ ہمارے پڑوس میں کون رہتا ہے۔ اب تو کسی کے پاس وقت ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی خبرگیری کرسکے۔

بھولنے کی اگر یہی رفتار رہی تو ایک دن ہم یہ بھی بھول جائیں گے کہ ہم مسلمان تھے۔ بس دال روٹی کھایا کریں گے اور سو جایا کریں گے۔