قومی بجٹ چند روز میں اسمبلی میں پیش ہونے والا ہے۔ اس بجٹ کو تیار کرنے کیلیے ایک عارضی وزیرخزانہ نوید قمر کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی جو ابھی تک بجٹ پر کام کر رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بجٹ پر تمام تاجر برادری، معاشی ماہرین اور عوام کی رائے لی جاتی اور اس کو بنانے کیلیے قومی اسمبلی کےممبران پر مشتمل کمیٹی کی بجائےمعاشی ماہرین کی کمیٹی بنائی جاتی تا کہ وہ بجٹ کو عوامی بجٹ بنانے میں اپنی صلاحیتیں استعمال کرتے۔

دراصل موجودہ حکومت کو پہلی حکومتوں کی طرح کسی معاشی ماہر کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ ہمارا بجٹ پچھلے کئی عشروں سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک ہی بنا رہے ہیں۔ اس دفعہ بھی انہی دونوں اداروں کے ماہرین پچھلے کئی ہفتوں سے ملک میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور ہمارا بجٹ بنانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔

اب آپ خود اندازہ لگا لیں جب بجٹ غیر بنائیں گے تو پھر فائدہ بھی وہی اٹھائیں گے۔ وہ اتنا کام کریں گے کہ ان کے فائدے میں رکاوٹ بننے والے بااثر سیاستدانوں کو ان کا حصہ ادا کر دیں گے۔ پچھلے سارے بجٹ اس بات کے گواہ ہیں کہ غیروں نے بجٹ ایسا پیش کیا جس کی رو سے ملکی صنعت تباہ ہوتی رہی اور درآمدات سستی کی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملکی پیداوار معدوم ہونے والی ہے اور پاکستان میں ہر چیز باہر سے درآمد ہونے لگی ہے۔

غیروں کے ہاتھوں بجٹ بننے کا ثبوت خود موجودہ بجٹ پیش کرے گا۔ اگر موجودہ بجٹ میں درآمدات پر کسٹم ڈیوٹی مزید کم کردی گئی، بجٹ کا زیادہ تر حصہ پیداواری اخراجات کی بجائے انتظامی اخراجات پر خرچ ہوا، ٹیکس نادہندگان کا محاسبہ نہ کیا گیا، ذرعی پیداوار، کیپیٹل گین ٹیکس اور پراپرٹی ٹیکس نہ لگایا گیا، تعلیم اور صحت پر صرف ایک فیصد رقم مختص کی گئی، ملک میں روزگار کے مواقع پیدا نہ کئے گئے، بینظر معاشی کارڈ کی بجائے لوگوں کو کاروبار شروع کرنے کیلیے رقم مختص نہ کی گئی، امیروں کو ٹیکس سے مستثنٰی قرار دے دیا گیا تو پھر سمجھیے گا کہ بجٹ کسی پاکستانی نے نہیں بلکہ آئی ایم ایف اور عالمی بنک نے ملکر بنایا ہے۔

بجٹ تبھی عوامی ہو گا جب عوام کی فلاح کا بندوبست کیا جائے گا۔ بجلی کے بحران پر قابو پانے کیلیے رقم مختص کی جائے گی، ملکی قرضوں کے گھٹانے کا بندوبست کیا جائے گا، ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جائے گی، تعلیمی اداروں کی بہتری کیلیے وسیع پیمانے پر اقدامات کیے گئے، دفاعی بجٹ کو قومی بجٹ کا حصہ بنا کر قومی اسمبلی میں بحث کیلیے پیش کیا گیا، ملکی صنعت کے تحفظ کے اقدامات سمیت دوسرے عوامی فیصلے کئے گئے تو پھر بجٹ عوامی ہو گا۔

اگر پچھلی حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو موجودہ بجٹ میں ہمیں کوئی انقلابی اقدامات اٹھتے نظر نہیں آتے۔ ملک پر قرضے مزید بڑھیں گے، مہنگائی بھی بڑھے گی، تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دی جائے گی بلکہ بینظیر معاشي کارڈ کی طرح کے عارضی اقدامات کرکے وقت ٹپاؤ ، کام چلاؤ پر عمل ہو گا۔

ہمارا بجٹ تبھی عوامی بجٹ ہو گا جب یہ پاکستانی معاشی ماہرین کی نگرانی میں بنایا جائے گا اور اس میں آئی ایم ایف اور عالمی بنک کا کوئی نمائندہ شامل نہیں ہوگا۔ یہ وقت تبھی آئے گا جب ملک پر مخلص اور قومی مفاد والی حکومت ہو گا۔ ابھی تک اگر ہم قومی اسمبلی میں باجوڑ پر ہونے والے اتحادی تیاروں کے حملے کی مزمت کی قراد داد پیش نہیں کرسکے تو اس کا مطلب ہے ہماری حکومت قومی حکومت نہیں ہے بلکہ تاج برطانیہ کی طرح کے کسی بکے ہوئے نواب کی حکومت ہے۔