جے یو آئی کی رکن اسمبلی آسیہ ناصر اور کئی اقلیتی ارکان نے اقلیتوں کی شراب نوشی روکنے کا بل قومی اسمبلی میں جمع کرایا تھا جسے قائمہ کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا۔ کل قائمہ کمیٹی کے مسلم ارکان اسمبلی نے اس بل کی مخالفت کی اور وجہ یہ بتائی کہ اس طرح پاکستان کی بیرونی ممالک میں جگ ہنسائی ہو گی۔ یہ حال ہے ہماری مسلمانی کا یعنی ہم اسلام میں منع کی گئی شراب کو بھی بند کرنے سے پہلے یہ سوچتے ہیں کہ کہیں غیرمسلم ممالک ہم پر ہنسے ناں۔ تو پھر آدمی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ہمارے وزیراعظم کا اپنے خاندان سمیت سرکاری خرچ پر رمضان میں عمرے کا کیا فائدہ؟
ویسے یہ بل اگر پاس ہو جائے اور اقلیتوں کے شراب کے پرمٹ کینسل ہو جائیں تو پھر پاکستان میں قائم شراب کی فیکٹریاں بند ہو جائیں گی اور اس طرح پاکستان سے شراب کشیدگی کا صفایا ہو جائے گا۔ اس طرح کم از کم اسلام میں منع کی گئی ایک چیز پر تو مسلمان ملک میں عمل ہو گا۔ مگر کیا کریں جب مسلمان ہی شرابی بن چکے ہوں تو وہ کیسے اس بل کو پاس ہونے دیں گے۔
ہماری اب بھی تمام ارکان اسمبلی سے گزارش ہے کہ وہ مل کر اس بل کو پاس کریں اور پاکستان میں شراب کی فیکٹریوں کو تالے لگا دیں۔ شراب کی درآمد پر پابندی عائد کر دی جائے حتیٰ کہ سفارتکار بھی اپنے ساتھ شراب پاکستان نہ لا سکیں۔ مگر ایسا نہیں ہو گا کیونکہ میاں برادران جو ضیاء دور کے بعد اسلامی قوانین کے نفاذ کا ڈھنڈورا پیٹا کرتے تھے وہ یہ مشن بھلا بیٹھے ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہے کہیں بیرونی طاقتیں ان کا اقتدار نہ چھین لیں۔
میاں برادران اب ساٹھ کے پیٹے میں ہیں۔ وہ اور کتنی دیر مزید جی لیں گے۔ انہیں اب اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے تا کہ وہ خدا کے سامنے سرخرو ہو سکیں۔ مگر وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ وہ بھی صرف نام کے مسلمان ہیں۔ وہ یاد رکھیں اگر انہوں نے اسلام کے نفاذ کیلیے عملی اقدامات نہ اٹھائے تو روزِ محشر ان کے دکھاوے کے عمرے ان کے منہ پر مار دیئے جائیں گے۔