پاکستان کے تیرہ میں سے بارہ صدور کا زمانہ ہم اپنی مختصر سی زندگی میں دیکھ چکے ہیں۔ سکندر مرزا کو بطور صدر نہیں جانتے مگر بعد میں ان پر کیا بیتی یہ ہمیں معلوم ہے یعنی وہ انگلینڈ میں کسم پرسی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے۔

صدر ایوب کے دور میں پاکستان نے صنعتی ترقی کی اور وہ دور پاکستان کے سنہری ادوار میں شمار ہوتا ہے۔ سی آئی اے کے بعد کے جاری کردہ کاغذات کے مطابق ایوب ان کا ایجنٹ تھا۔ صدر ایوب نے پاکستان کو انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں رسوا کیا اور ہارے ہوئے جرنیل کی طرح معاہدہ تاشقند میں پاکستان کے دریا ہندوستان کو بیچ دیے۔

جنرل یحی پاکستان کا سب سے بڑا شرابی کبابی صدر تھا جس کی خودغرضی کی وجہ سے پاکستان دو لخت ہو گیا۔ اس کا مختصر دور پاکستان کا ناکام ترین دور ہے جس میں پاکستان نے ہندوستان کے آگے ہتھیار ڈالے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی صدارت میں بچے کھچے پاکستان نے نئے دور کا آغاز کیا۔ بھٹو کو بھی پاکستان کو توڑنے والوں میں شمار کرتے ہیں۔ بھٹو نے مجیب الرحمن کو حکومت دینے کی بجائے ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگا کر خودغرضی کی انتہا کر دی۔ بھٹو نے پہلے سوشلزم اور بعد میں اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا مگر عوام کو روٹی کپڑا اور مکان نہ دے سکا بلکہ راشن ڈپو بنا کر لوگوں کو روٹی کپڑے مکان کیلیے لائنوں میں کھڑا کر دیا۔ بھٹو نے عوام میں سیاسی شعور پیدا کیا مگر اپنے اقتدار کے اختتام پر وہ بھی جاگیرداروں اور وڈیروں کی جھولی میں جا گرا۔ ساری عمر شراب پیتا رہا مگر آخر عوامی دباؤ کے نتیجے میں اسے شراب پر پابندی لگانی پڑی۔ اس نے سٹوڈنٹ اور مزدور یونینز بنا کر عوام کو اپنے حقوق کیلیے لڑنے کی راہ دکھائی مگر آنے والی حکومتوں کیلیے عوامی حقوق کی یھ جنگ خطرہ بن گئی اور انہوں نے ان پر ایسی پابندی لگا دی جو موجودہ پی پی پی کی حکومت وعدے کے باوجود بھی ختم نہیں کر سکی۔ بھٹو کو اسلیے پھانسی لگا دیا گیا کہ اس وقت قبر ایک تھی اور مردے دو تھے۔ بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کیلیے خان ریسرچ لیب کا قیام تھا۔

چوہدری فضل الہی پاکستان کے پہلے بے اختیار صدر تھے جنہیں بھٹو نے صرف دکھاوے کیلیے منتخب کیا۔ فضل الہی چوہدری کی چھٹی جنرل ضیا نے کرائی۔ فضل الہی نے بطور صدر پاکستان کیلیے کچھ نہیں کیا بس بھٹو کی جی حضوری میں وقت گزار دیا۔

ضیاالحق پاکستان کا جنرل ایوب کے بعد ایک اور مضبوط ڈکٹیٹر صدر تھا جس نے آٹھویں ترمیم سے پاکستان کے آئین کو پھر پارلیمانی سے صدارتی بنا دیا۔ جنرل ضیا نے اسلامی جماعتوں کو اپنے حق میں خوب استعمال کیا۔ جنرل ضیا پاکستان کا واحد حکمران تھا جس نے اسلام کو اپنے اور امریکہ کیلیے استعمال کیا۔ جنرل ضیا نے افغانستان میں روس کیخلاف امریکہ کی جنگ لڑی اور مرد مومون مرد حق کا خطاب پایا۔ جب افغانستان سے روس بھاگ گیا تو کہتے ہیں امریکہ نے جنرل ضیا سے بھی چھٹکارا حاصل کر لیا۔ جنرل ضیا کا سارا دور ایسے روس کیخلاف جنگ کی نظر ہو گیا جیسے امریکی صدر جونیئر بش کا دور عراق جنگ کی نظر ہو گیا۔ جنرل ضیا گیارہ سال میں بھی پاکستان میں اسلام نافذ نہ کر سکا اور یہی اس کی سب سے بڑی منافقت تھی۔

غلام اسحاق خان بھی سی آئی اے کا آدمی تھا اور اس نے وزیرخزانہ اور پھر صدر کی حیثیت سے آئی ایم ایف کے مفادات کو پاکستان کے مفادات پر ترجيح دی۔ غلام اسحاق خان بینظیر اور نواز شریف کی حکومتوں کیساتھ کھیلتا رہا اور آخر میں بینظیر کی وعدہ خلافی کی وجہ سے قصر صدارت سے رخصت ہوا۔ اسحاق خان کا دور پاکستان کیلیے منحوس دور ثابت ہوا جس میں جمہوریت کے کئی تجربات ناکام ہوئے اور آخرکار ملک پر فوج نے دوبارہ قبضہ کر لیا۔

وسیم سجاد عارضی حکومت کے تین ماہ صدر رہے۔ اس دوران معین قریشی کو امریکہ نے پاکستان پر زبردستی تھوپ دیا۔ معین قریشی نے آئی ایم ایف کے ہاتھوں پاکستان کو مزید مقروض بنایا۔ امپورٹ ڈیوٹیاں کم کیں اور بجٹ آئی ایم ایف کی مرضی کیمطابق بنایا۔ وسیم سجاد تماشائی بن کر یہ سب دیکھتے رہے۔

فاروق لغاری کو بینظیر نےغلام اسحاق سے وعدہ خلافی کر کے صدر بنایا اور بعد میں صدر لغاری نے اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ فاروق لغاری ایک ڈمی صدر تھا کیونکہ پاکستان میں پارلیمانی نظام دوبارہ رائج ہو چکا تھا۔ فاروق لغاری فارغ ہونے کے بعد سابق صدر کے طور پر زندگی گزارنے کی بجائے جنرل مشرف کی جھولی میں جا بیٹھا اور ایک عام سیاستدان کی طرح باقی زندگی گزار دی۔

وسیم سجاد دوبارہ عارضی صدر بنا اور اس دفعہ معراج محمد خان نے سادگی سے تین ماہ کا عرصہ پورا کیا مگر پاکستان کو اس دور میں بھی کچھ فائدہ نہ ہوا۔

رفیق تارڑ بھی چوہدری فضل الہی کی طرح ڈمی اور نام کا صدر تھا۔ اس کے دور میں نواز شریف ہی سب کچھ تھے۔

جنرل پرویز مشرف نے اپنے سابقہ جرنیلوں کی طرح زبردستی حکومت پر قبضہ کیا اور صدارت کے آٹھ سال جما کر حکومت کی۔ یہ واحد فوجی سربراہ تھا جو وردی اتارنے کے بعد ذلیل ہو کر صدارت سے الگ ہوا۔ جس طرح جنرل ضیا نے امریکہ کیلیے اسلام کے نام پر حکومت کی اسی طرح جنرل مشرف نے اس کے ایک سو نوے درجے الٹ روشن خیالی کے نام پر امریکہ کو اپنی خدمات سونپ دیں۔ جنرل مشرف کے دور میں پاکستان اپنی انا بھی قربان کر بیٹھا اور بھارت کے آگے برائے نام قوت بن کر رہ گیا۔ جنرل مشرف کا دور ڈالروں کی ریل پیل کی وجہ سے خوش حال دور مانا جاتا ہے۔ نو گیارہ کا حادثہ جنرل مشرف کیلیے مبارک ثابت ہوا اور اس کے بعد لوگ ڈالر سمیت کر پاکستان بھاگ آئے۔ مزید ڈالر افغانستان کی جنگ میں امریکہ کی حمایت کے بدلے میں ملنے لگے جن کی وجہ سے پاکستان کی ریل اسٹیٹ اور سٹاک مارکیٹ نے خوب بزنس کیا۔ جنرل مشرف کے کشکول توڑو کے نعرے کے باوجود پاکستان مزید مقروض ہی ہوا۔ جنرل مشرف نے دو بار ملک کا آئین توڑا اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو دوبار غیرقانونی طور پر ہٹایا۔ نواز شریف اور بینظیر سے غداری کرنے والوں کی اکثریت نے جنرل مشرف کے دور میں خوب عیاشي کی۔