اجمل صاحب نے ہماری تحریر “قرآن کی سمجھ” کا تفصیلی جواب لکھ کر نہ صرف اپنا فرض پورا کیا بلکہ ان قارئین کی خواہش پوری کر دی جنہوں نے ہماری رائے کی بھرپور مخالفت کی۔ ہم اس بحث کو یہیں سمیٹنا چاہتے تھے مگر قارئین کے بتصرے اور اجمل صاحب کی تحریر پڑھنے کے بعد بھی ہماری پیاس نہیں بجھی اور اب بھی ہم چند سوالات کے جوابات کے متلاشی ہیں۔

ہماری تحریر کے جواب میں جتنے بھی تبصرے ہوئے اور لکھا گیا ان کا زمینی حقائق سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ خیال آرائیاں ہیں یعنی اگر ایسا ہو تو آئیڈیل  ہو گا جب کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ دنیا کے مسلمانوں کی حالت تو دوسری طرف ہم پاکستانی مسلمانوں میں ایک فیصد بھی ایسے نہیں ہوں گے جنہوں نے قرآن ترجمے کیساتھ بڑھا ہو گا۔ ابھی کل ہی ایک آدمی کے ثواب کیلیے قرآن خوانی میں شامل تھے۔ سب نے قرآن عربی میں پڑھا اور ہمارے پوچھنے پر ایک بھی آدمی ایسا نہیں تھا جس نے اقرار کیا ہو کہ جو اس نے پڑھا اس کی اسے سمجھ بھی آئی ہو۔

ایک سوال تو یہ ہے کہ جتنے بھی قارئین نے ہماری تحریر کی مخالفت کی کیا انہیں قرآن بمع ترجمہ پڑھایا گیا تھا اور کیا انہوں نے اپنے بچوں کو قرآن بمع ترجمہ پڑھایا یا پھر پڑھا رہے ہیں۔ یہ سوال ہم اپنے اگلے سروے میں شامل کر رہے ہیں اور دیکھتے ہیں کم از کم قارئین میں سے کتنے فیصد قرآن کو عربی میں پڑھتے ہوئے جانتے ہیں کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں۔

مسلمانو جذبات کی رو میں بہ کر مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ کہتے ہیں کہ بیوقوف سے بھی آدمی عقل کی باتیں سیکھ سکتا ہے۔ ہم نے بھی کوشش کی مگر یہ ہماری بیوقوفی یا کم عقلی سمجھ لیں کہ ہم آپ تک وہ پیغام نہیں پہنچا سکے  جو ہم آپ تک پہنچانا چاہ رہے تھے ۔ سب نے جذباتی تبصرے کر کے اپنا حق مسلمانی تو ادا کر دیا مگر مسئلہ وہیں کا وہیں ہے یعنی کیا پاکستانی مسلمان قرآن پڑھتے ہوئے جانتے ہیں کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں؟

اجمل صاحب کی تحریر پڑھنے کے بعد بھی تشنگی باقی ہے اور امید ہے وہ ہمارے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دے کر ہمیں مزید سیکھنے کا موقع دیں گے۔

اگر عربی زبان سیکھنا مشکل نہیں ہے تو پھر خصوصی طور پر ہم پاکستانی مسلمانوں اور بالخصوص غیر عربی مسلمانوں کو عربی زبان کیوں نہیں آتی؟ کہاں لکھا ہے کہ مسلمان کیلیے عربی زبان سیکھنا فرض ہے یعنی جسے عربی نہیں آتی وہ مسلمان نہیں ہے؟ قرآن کو ترجمے یعنی اردو میں پڑھنے کی بات کر کے ہم نے کوئی نئی بات نہیں کی بلکہ بمع اجمل صاحب تمام قارئین نے اعتراف کیا ہے کہ قرآن کے تراجم مارکیٹ میں پہلے سے موجود ہیں جو ایک سے زیادہ مسلمانوں نے کئے ہیں۔ اس لیے قرآن کا ترجمہ اپنی زبان میں پڑھنے سے قرآن میں تبدیلی نہیں آجائے گی اور اگر ایسی بات ہوتی تو اب تک قرآن بدل چکا ہوتا۔ بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ جسے عربی نہیں آتی وہ قرآن خوانی یا اس طرح کے مواقع پر قرآن عربی میں پڑھنے کی بجائے اس کا ترجمہ پڑھے تا کہ ایصال ثواب کیساتھ ساتھ اسے پتہ بھی چلے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔ قرآن کو عربی میں پڑھنے کی بجائے اس کا ترجمہ پڑھنے میں کیا قباحب ہے؟

قرآن اپنی زبان میں پڑھنے کے نتیجے کی مثال اجمل صاحب نے ترکی کے کمال اتا ترک کی دی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اتا ترک انقلاب کی بنیاد قرآن اپنی زبان میں پڑھنا نہیں تھی بلکہ جب مسلانوں کو جنگ عظیم دوم میں شکست ہوئی تو فاتحین نے مسلمانوں کو مستقبل میں پھر طاقت پکڑنے سے روکنے کیلیے اپنا نمائندہ ترکی کا حکمران بنا دیا جو دہریہ تھا۔ اس نے ترکی سے اسلامی نظام ختم کر کے سیکولرازم نافذ کر دیا اور اسی سیکولرازم کی بنیاد پر اس نے تمام اقدامات کئے جن کا احاطہ اجمل صاحب نے اپنی تحریر میں کیا ہے۔ سوال یہ ہے کیا ترکی میں اسلامی نظام کا خاتمہ صرف قرآن اور نماز اپنی زبان میں پڑھنے سے ہوا؟

ہم پھر آخر میں قارئین کی توجہ زمینی حقائق کی طرف دلاتےہوئے اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کی آخری کوشش کرتےہوئے اپنا سوال دوبارہ دہراتے ہیں۔ بالخصوص پاکستانی اور عمومی طور پر غیر عربی مسلمانوں میں کتنےفیصد ایسے ہیں جو قرآن پڑھتے ہوئے جانتے ہیں کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں؟ اگر ان کی اکثریت قرآن کی سمجھ نہیں رکھتی تو پھر اس کا آسان اور قابل عمل حل کیا ہے؟ خدارا اس حل کی بات مت کیجئے گا جو صرف آئیڈیل ہو اور جس پر پچھلی کئی صدیوں سے عمل نہ ہو رہا ہے۔