بس یہی ایک کسر باقی رہ گئی تھی یعنی حکمران سفیر کو اپنے نائب کیساتھ حضرت مادھولال کے دربار پر جاضری دینے کی سعادت نصیب ہوئی۔
ہم سوچ رہے ہیں کیا مادھولال کے دربار کے متولی مقامی عیسائی کو بھی اسی طرح دربار پر حاضری دینے دیتے؟
سارا کھیل پیسے اور طاقت کا ہے بابا۔
اگر پیسہ ہے تو چوہڑا بھی چوہدری اور اگر کنگلا ہے تو چوہدری بھی چوہڑا۔
پتہ نہیں اس زیارت سے زیارتیوں نے کیا پایا اور متولیوں کو کیا ملا؟
اس سے تو اچھا تھا کہ ہمارے بدیسی حکمران سواتیوں کے خیموں کا دورہ کرتے اور انہیں بتاتے کہ فکر نہ کرو اگر تم سمھتے ہو کہ ہماری وجہ سے تمہیں یہ دن دیکھنا پڑے ہیں تو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اگر مقامی حکمرانوں نے اپنا کمیشن نہ کاٹا تو ہماری کروڑوں کی امداد تم تک پہنچنے ہی والی ہے۔
10 users commented in " یہی کسر باقی تھی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاللہ تعالیٰ ان قبر پرستوں کو ہدایت دے۔
فرق صرف نام کا ہے ۔ قبروں کی پوجا کرنے والے کونسے مسلمان ہوتے ہیں
ہمارے حکمران جو اتنے سیانے ہوجائیں ۔۔
تو میں بلاگنگ چھوڑ دو
کیا خیال ہے ؟
بلکل انکل آپ نے بہت درست تبصرہ کیا ہے ۔۔ وصلہ کرنا بھی صحیح نہیں جیسے ہماری نماز میں دعا میں آتا ہے کہ
آخرت کے دن آپ صلی اللہ و علی وصلم کو وصیلہ و فضیلت بنا
بات سمجھنے کی ہے کہ آخرت کے دن میں اجازت ہے وصیلہ کی
حضرت مادھولال؟؟؟۔
یہ کون ہیں وضاحت فرمادیں گے؟۔
اگر کسی غلط جگہ کوئی غلط آدمی چلا گیا تو کیا عجب ہوا؟
ویسے پیروں کی سمادھیوں پر سب مشرک ہی پوجا کرتے انکے نام چاہے مادھولالہ ہو یا ابولالہ ہو کیا فرق پرتا ہے. :)
پتہ نہیں کیوں، مگر آپکی لگائی ہوئی امریکن سفیر کی تصویر دیکھ۔ کر مجھے وہ ہندو رہنماء یاد آگئے۔ جو بھارتی انتخابات کے موقع پہ بھارت کے مظلوم و بے بس اور مسکین مسلمانوں کے ساتھ مساجد میں، نہرو ٹوپی پہنے نماز پڑھنے پہنچ جاتے ہیں۔اور مسلمانوں مقتدیوں کی طرف دیکھ دیکھ کر رکوع و سجود کرتے ہوئے ہوئے۔ بے بس مسلمان نمازیوں کی اقتداء میں نماز پڑھنے پڑھتے ہیں۔ اور مسکین نمازی بھارتی نیتاؤں کو اپنی صفوں میں دیکھ کر پھولے نہیں سماتے۔
کیا وہ بھارتی نیتا۔ بھارتی سیاستدان رہنماء نماز پڑھتے ہیں۔؟ یا نماز پڑھنے کا دھونگ رچاتے ہیں۔؟؟ کیا بھارتی رہنامؤں کا وہ عمل درحقیقت نماز ہوتی ہے یا نماز پڑھنے کا ڈھونگ ہوتا ہے۔؟؟
اگر وہ نماز دل سے پڑھیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اسلام سمجھ کر ۔ مسلمان ہو کر دل سے نماز پڑھتے ہیں ۔ اور اسطرح وہ مسلمان کہلانے کے حقدار ہیں۔ اور اگر تو جوب یہ آتا ہے کہ نہیں ۔ وہ بھارتی سیاستدان مسلمان ہوئے بغیر نماز پڑھنے کا محض ڈھونگ رچاتے ہیں ، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ بھارتی مسلمانوں سے ووٹ لینے کے لئیے منافقت کرتے ہوئے ۔ بھارتی مسلمانوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔ جبکہ بھارتی نیتا اندر سے پورے پورے کٹڑ ہندؤ ہوتے ہیں۔ تو ایسی صورت میں جہاں اور مسلمانوں کے مقابلے میں ہر لحاظ سے صاحب اختیار اور انتہائی طاقتور ہندؤو سیاستدان قصوروار ہیں ۔وہیں اپنے درمیان انتہائی مکار فطرت ہندو رہنماؤں کو دیکھ کر خوش ہونے والے مسلمانوں پہ ترس آتا ہے کہ وہ ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں انھیں دوسرے بلکہ تیسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔اور ان مسلمانوں کی تو مجبوری ہے۔
مگر یہ امریکی کیا واقعی اسقدر بے وقوف ہیں۔؟ جو یہ سمجھتے ہیں۔ کہ اسطرح کا سوانگ بھرنے سے وہ(امریکی) پا کستانی عوام کو اس طرح بے وقوف بنا کر ان کے دل جیت لیں گے؟۔
اگر امریکی واقعی یوں سمجھتے ہیں تو امریکیوں سے بڑھ کر کوئی بے وقوف نہیں۔
اس حرکت کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ آپ ذرا تصور کریں۔ کہ اس مزار کا گدی نشین ( اگر کوئی گدی نشین ہے تو) اور علاقے کے جہلاء صاحب قبر کی کرامات میں ای اور کرامت کا اضافہ کر دیں گے کہ امریکی سفیر ننگے پاؤں، اور سر ڈھانپ کر باے کے آستانے پہ کنچھی چلی آئی۔ اور جاہلوں کی تعداد مزید بڑھے گی۔
اور امریکیوں کو اس طرح کا پاکستان خوب راس آتا ہے۔ جس طرح مغرب میں یہود کو چرچ تک محددو کردی جانے والی نصرانیت راس آئی ہے۔
ہمیں یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ ہم مسلمانوں کے لئیے ہر نقصان دہ واقعہ کو یہود کی کارستانی قرار دیتے ہیں۔ اور سیدھے سادے واقعے کے پیچھے بھی ہم خفیہ ہاتھ ڈھونڈتے ہیں۔
یہ قوتیں، مسلمانوں کو، مذھب اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات کی طرح اپنے معاشروں میں نفاذ کرنے دئیے جانے کی سخت مخالف ہیں۔ اور یہ چاہتی ہیں کہ اسلام کو بھی صرف مسجد تک محدود کر دیا جائے۔
اور اسکی ایک وجہ ہے۔ کہ جب بھی کسی معاشرے یا ملک میں اسلام بطور نظام نافذ ہوا تو لازمی طور پہ توحید اور نماز کے بعد اسلام کے تیسرے رکن جو عبادت بھی ہے زکٰواۃ کا نفاذ ہوگا۔ اور اسلام کا معاشی نظام زکٰواۃ جو فرض بھی ایسا ہے کہ یہ اللہ اور بندے کا بھی معاملہ ہے ۔ فرض بھی اور عبادت بھی ۔اسلام کا معاشی نظام زکواۃ میں اکثریت کا مفاد مدنظر رکھا گیا ہے ۔ جس میں زیادہ مالدار کو کم مالدار ایسا ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے جو اللہ کی طرف سے نافذ ہے اور مسلمان ہونے کی صورت میں اس مفر نہیں ۔ اور ٹیکس دینے والے کا کوئی احسان نہیں اور یہ ٹیکس لنے والا کسی طرح سے ٹیکس ادا کرنے والے کا ممنون نہیں ۔
یعنی اسلام کے معاشی نظام زکٰواۃ میں سرمایہ امیروں سے غریبوں کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ اور سرمایہ دار کو سرمایہ ہر صورت میں صنعت زراعت یا تجارت وغیرہ کی صورت میں لگنا پڑتا ہے کیونکہ اسلام میں سود بھی حرام ہے۔ اور سرمایہ کاری کے لئیے عملی صورت اختیار کرنی پڑتی ہے۔ سرمایے کی متواتر کھپت سے بے انتہاء روزگار پیدا ہوتا ہے ۔ پیداوار میں زبردست اضافہ ہوتا ہے ۔ اور ایک خاص حد سے زائد آمدن پہ ہر کس و ناکس کو خدائی ٹیکس (زکواۃ) بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ سودی معشیت ایسا کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی ۔ کیونکہ سودی معشیت کی بنیاد کمزروں سے ان کا سرمایہ اپنی طرف منتقل کرنا ہوتا ہے ۔جبکہ سب جانتے ہیں کہ دنیا میں سودی سرمایہ کاری کس کے ھاتھ میں دنیا میں یکطرفہ طور پہ نافذ واحد سرمایہ دارانہ نظام کےخالق و مالک کون ہیں۔ اور موجودہ مالی بحران کے ذمہ داران کون ہیں۔
ایک سیانے آدمی نے سوال کیا تھا۔ کہ صارف سوسائٹی میں چار اشیاء بنیادی رول ادا کرتی ہیں۔
نمبر ایک۔: کام کرنے والے۔
نمبر دو۔: جن کا کام پھنسا ہو۔ جیسے گھر کی تعمیر۔ فیکٹری میں مال کی تیاری ۔ یا بلدیہ کی نالیوں کی صفائی۔ یعنی کام کی مناسب وجہ ہونا۔
نمبر تین ۔: کام کو انجام دینے کے لئیے مناسب میڈیم ( وسائل) ۔ مثلاً بیلچہ۔ کرین ۔ مشینری وغیرہ۔
نمبر چار ۔: اجرت ادا کرنے کے لئیے پیسہ۔
اس موجودہ بحران میں کام کرنے والے بھی اسی طرح موجود ہیں ، کام لینے والے بھی اپنی روز مرہ وجوہات کے تحت کام لینا چاھتے ہیں۔ میڈیم یعنی وسائل جیسے ٹرک، کرین ،مشینری اور فیکٹریاں بھی موجود ہیں۔
اگر مارکیٹ سے غائب ہے تو صرف اور صرف پیسہ غائب ہے اور پیسے کو اندھی طاقت دینے والے ، اس کے مالک کون ہیں یہ سب کو پتہ ہے۔
کمال ستم ظریفی ہے کہ صبح شام مشقت و محنت کرنے کے باوجود پوری دنیا ان چند ھاتھوں کی اڑسٹھ فیصد مقروض ہے ۔ اور یہ چند ھاتھ ساری دنیا کے اڑسٹھ فیصد قرضے کے مالک ہیں اور پوری دنیا کی قسمت کے مالک ہیں جبکہ پوری دنیا چاہے بھی تو انکا قرض ادا نہیں کر سکتی۔ کیونکہ پوری دنیا کے سو فیصد وسائل کبھی کسی طرح بھی اڑسٹھ فیصد نہیں ہو سکتے ۔ کہ سو فیصد سے اوپری رقم کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اور یہ ہی سود کی سب سے بڑی لعنت ہے کہ اس میں سودی لوگ کاروباری ادارے سو فیصد چوس لینے کے بعد بھی (سود کی شرح جس کا حقیقی معنوں میں کوئی وجود نہیں ہوتا) شرح سود کا مطالبہ کرتے ہیں جو کبھی بھی پورا نہیں کیا جاسکتا۔ اور یہ شیطانی چکر کبھی ختم نہیں ہوتا ۔یہ باطل نظام ہیں۔
جبکہ اسلام کا معاشی نظام سودی معشیت کی ضد ہے ۔ اور یہ انسانیت کو کنگال کر کے محکوم نہیں کرتا بلکہ انسانیت کی تعمیر کرتا ہے ۔ اور سب کے لئیے یکساں مواقع پیدا کرتا ہے۔ اور جس طرح روشنی ہونے سے اندھیرے مٹ جاتے ہیں اسی طرح اسلام کے معاشی نظام کے سامنے سودی نظام نہیں ٹھہر سکتا۔
اس لیے اس سودی ٹولے کو اگر دنیا میں کسی نظام سے خطرہ ہے۔ کہ وہ ایک دن سودی نظام کے لیے حقیقی چلینج بن سکتا ہے۔ تو وہ اسلام ہے ۔ اور اس لئے شیطانی قوتیں ہمیشہ سے اسلام کے خلاف رہی ہیں ۔ اور اسلام کے خلاف رہیں گی۔ اور چاھتی ہیں کہ اسلام صرف مسجد اور نماز روزہ تک محدود رہے۔ جو کہ مسمان اور اسلام کی شان کے خلاف ہے۔ اور ناممکن ہے۔ ا
مگر کوشیش جاری ہیں اور امریکن سفیر کی اس بھونڈی حرکت کو بھی اسی پس منظر میں دیکھنا چاھئیے کہ وہ چاھتے ہیں کہ ہم بھی مسجد تک محدود ہوجائیں اور ہماری نبضیں سودی ٹولے کے ہاتھ میں ہوں۔
مجھے تو لگتا ہے کہ اب امریکی سفارتخانے کو بھی آستانہ کہا جانے لگے گا
مریدوں کا تو پہلے سے ہی رش رہتا ہے وہاں
اور پیر و مرشد اوبامہ (امریکہ والے) اور ان کے وطن کے خلاف نفرت کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی
جاوید گوندل صاحب!
میں اس ویب سائٹ کو پانچ ماہ سے پڑھتا ہوں
لیکن جو بھی تحریر دیکھتا ہو اس میں آپ کی دو یا تین تبصرے ہوتے ہیں آپ یہ بتائیں آپ اس ویب سائٹ کو کب سے پڑھتے ہیں اور دن میں کتنے بار کھولتے ہیں؟ اور آپ مجھے اپنا تفصیلی تعارف بتائیں؟
Leave A Reply